لندن —
صحافیوں کے لیے 2012ء تاریخ کا مہلک ترین سال تھا۔ اس سال کے دوران 100 سے زیادہ صحافی اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے ہلاک ہوئے۔ اقوامِ متحدہ دنیا بھر میں صحافیوں کی حفاظت کو بہتر بنانے کی مہم شروع کر رہی ہے۔
فروری 2012ء میں شام کے شہر حمص پر گولے گر رہے ہیں۔ ایک گولہ ٹھیک اس عمارت پر گرتا ہے جو غیر ملکی میڈیا کے استعمال میں ہے۔ اخبار سنڈے ٹائمزکی شہرہ آفاق نامہ نگار میری کولوِن اور فرانسیسی صحافی ریمی اوچلک دونوں ہلاک ہو جاتی ہیں۔ فوٹو گرافر پاؤل کونرے زخمی ہوتے ہیں۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا وہ اس باغی جنگجو کو بتایا جو ان کے نزدیک ہی تھا۔
’’ایک گولہ ٹھیک ہمارے اوپر آن گرا۔ میری ٹانگ بری طرح زخمی ہوئی، اور میری ساتھی میری کولون ہلاک ہو گئیں، اور ریمی بھی ماری گئیں۔‘‘
2012ء کے اس واقعے کو بڑی شہرت ملی۔ لیکن میڈیا سے تعلق رکھنے والے اور بہت سے لوگوں پر بھی مہلک حملے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے سینٹر فار فریڈم آف دی میڈیا کے ولیم ہارسلے کہتے ہیں ’’نہ صرف یہ کہ ایسے صحافیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو تا رہا ہے جنہیں کسی جرم، کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال کی خبریں دینے سے روکنے کے لیے ہلاک کیا گیا ہے، بلکہ گذشتہ چند برسوں میں، خاص طور سے شمالی افریقہ میں، صومالیہ سے لے کر شام تک، جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔‘‘
بالکل صحیح اعداد و شمار میں تو اختلاف ہے، لیکن اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ 2012ء میں 100 صحافی اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔ گذشتہ سال کے آخر میں ، ویانا کی ایک کانفرنس میں، اقوامِ متحدہ نے ایکشن پلان آن دی سیفٹی آف جرنلسٹس اینڈ کومبیٹنگ امپیونیٹی نامی پروگرام شروع کیا ۔
ولیم ہارسلے کہتے ہیں’’ضرورت اس بات کی ہے کہ عام لوگ اور پریس دنیا کو یہ سمجھائیں کہ صحافیوں کی ہلاکت سے قانون کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے اور پورے معاشروں میں استحکام کو نقصان پہنچتا ہے ۔‘‘
اکتوبر میں بی بی سی کالج آف جرنلزم میں عالمی میڈیا کے ارکان نے ایک سمپوزیم میں صحافیوں پر حملوں کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا ۔
صرف 2012ء کے دوران، تقریباً 20 صومالی صحافی ہلاک ہوئے۔ صومالی نیشنل یونین آف جرنلسٹس کے عمر فاروق عثمان کہتے ہیں کہ قتل کی بعض وارداتوں میں انتہائی سفاکی سے کام لیا گیا ہے۔
’’صومالیہ میں صحافیوں کو صرف گولی مار کر ہلاک نہیں کیا جاتا، ان کے سر بھی قلم کر دیے جاتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی یہ نہیں دیکھا تھا کہ صحافیوں کے سر تن سے جد ا کر دیے گئے ہوں۔‘‘
پاکستانی میڈیا نے اسکول کی ایک بہادر لڑکی ملالہ یوسف زئی پر حملے کو جس طرح کور کیا ہے ، اس پر اسے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ یہ لڑکی اب برطانیہ کے ایک اسپتال سے ڈسچارج ہو چکی ہے۔ اس پر طالبان نے گولیوں سے حملہ کیا تھا۔ پاکستان میں جیو ٹی وی کے حامد میر نے طالبان کے دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’طالبان نے اعلان کیا ہے کہ پاکستانی میڈیا سے ان کی کھلی جنگ ہے کیوں کہ ہم اس چھوٹی سی بچی مالالہ یوسف زئی کی حمایت کر رہے ہیں۔‘‘
لندن کے اخبار سنڈے ٹائمز کے ایسو سی ایٹ ایڈیٹر باب ٹائرر کہتے ہیں کہ میڈیا کو زیادہ مضبوط قانونی تحفظ ملنا چاہیئے۔ ’’میرے خیال میں صحافیوں کی ہلاکت کو انسانیت کے خلاف جرم کا درجہ دیا جانا چاہیئے ۔‘‘
امریکی فری لانس رپورٹر جیمز فولے کو نومبر میں بعض نامعلوم مسلح افراد نے شام میں اغواء کیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ لاپتا ہیں۔ اس واقعے سے ہماری یاد دہانی ہوتی ہے کہ صحافت کو درپیش خطرات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔
فروری 2012ء میں شام کے شہر حمص پر گولے گر رہے ہیں۔ ایک گولہ ٹھیک اس عمارت پر گرتا ہے جو غیر ملکی میڈیا کے استعمال میں ہے۔ اخبار سنڈے ٹائمزکی شہرہ آفاق نامہ نگار میری کولوِن اور فرانسیسی صحافی ریمی اوچلک دونوں ہلاک ہو جاتی ہیں۔ فوٹو گرافر پاؤل کونرے زخمی ہوتے ہیں۔ انھوں نے جو کچھ دیکھا وہ اس باغی جنگجو کو بتایا جو ان کے نزدیک ہی تھا۔
’’ایک گولہ ٹھیک ہمارے اوپر آن گرا۔ میری ٹانگ بری طرح زخمی ہوئی، اور میری ساتھی میری کولون ہلاک ہو گئیں، اور ریمی بھی ماری گئیں۔‘‘
2012ء کے اس واقعے کو بڑی شہرت ملی۔ لیکن میڈیا سے تعلق رکھنے والے اور بہت سے لوگوں پر بھی مہلک حملے ہوئے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو ان کی رپورٹنگ کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا۔
یونیورسٹی آف شیفیلڈ کے سینٹر فار فریڈم آف دی میڈیا کے ولیم ہارسلے کہتے ہیں ’’نہ صرف یہ کہ ایسے صحافیوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو تا رہا ہے جنہیں کسی جرم، کرپشن یا اختیارات کے ناجائز استعمال کی خبریں دینے سے روکنے کے لیے ہلاک کیا گیا ہے، بلکہ گذشتہ چند برسوں میں، خاص طور سے شمالی افریقہ میں، صومالیہ سے لے کر شام تک، جنگ کے شعلے بھڑک اٹھے ہیں۔‘‘
بالکل صحیح اعداد و شمار میں تو اختلاف ہے، لیکن اقوامِ متحدہ نے کہا ہے کہ 2012ء میں 100 صحافی اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے ہلاک ہو گئے۔ گذشتہ سال کے آخر میں ، ویانا کی ایک کانفرنس میں، اقوامِ متحدہ نے ایکشن پلان آن دی سیفٹی آف جرنلسٹس اینڈ کومبیٹنگ امپیونیٹی نامی پروگرام شروع کیا ۔
ولیم ہارسلے کہتے ہیں’’ضرورت اس بات کی ہے کہ عام لوگ اور پریس دنیا کو یہ سمجھائیں کہ صحافیوں کی ہلاکت سے قانون کی حکمرانی کمزور ہوتی ہے اور پورے معاشروں میں استحکام کو نقصان پہنچتا ہے ۔‘‘
اکتوبر میں بی بی سی کالج آف جرنلزم میں عالمی میڈیا کے ارکان نے ایک سمپوزیم میں صحافیوں پر حملوں کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا ۔
صرف 2012ء کے دوران، تقریباً 20 صومالی صحافی ہلاک ہوئے۔ صومالی نیشنل یونین آف جرنلسٹس کے عمر فاروق عثمان کہتے ہیں کہ قتل کی بعض وارداتوں میں انتہائی سفاکی سے کام لیا گیا ہے۔
’’صومالیہ میں صحافیوں کو صرف گولی مار کر ہلاک نہیں کیا جاتا، ان کے سر بھی قلم کر دیے جاتے ہیں۔ ہم نے اپنی زندگی میں کبھی یہ نہیں دیکھا تھا کہ صحافیوں کے سر تن سے جد ا کر دیے گئے ہوں۔‘‘
پاکستانی میڈیا نے اسکول کی ایک بہادر لڑکی ملالہ یوسف زئی پر حملے کو جس طرح کور کیا ہے ، اس پر اسے دھمکیاں مل رہی ہیں۔ یہ لڑکی اب برطانیہ کے ایک اسپتال سے ڈسچارج ہو چکی ہے۔ اس پر طالبان نے گولیوں سے حملہ کیا تھا۔ پاکستان میں جیو ٹی وی کے حامد میر نے طالبان کے دھمکیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا ’’طالبان نے اعلان کیا ہے کہ پاکستانی میڈیا سے ان کی کھلی جنگ ہے کیوں کہ ہم اس چھوٹی سی بچی مالالہ یوسف زئی کی حمایت کر رہے ہیں۔‘‘
لندن کے اخبار سنڈے ٹائمز کے ایسو سی ایٹ ایڈیٹر باب ٹائرر کہتے ہیں کہ میڈیا کو زیادہ مضبوط قانونی تحفظ ملنا چاہیئے۔ ’’میرے خیال میں صحافیوں کی ہلاکت کو انسانیت کے خلاف جرم کا درجہ دیا جانا چاہیئے ۔‘‘
امریکی فری لانس رپورٹر جیمز فولے کو نومبر میں بعض نامعلوم مسلح افراد نے شام میں اغواء کیا تھا۔ اس کے بعد سے وہ لاپتا ہیں۔ اس واقعے سے ہماری یاد دہانی ہوتی ہے کہ صحافت کو درپیش خطرات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔