لاہور ہائی کورٹ کے ججز پر مشتمل سات رُکنی انتظامی کمیٹی نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو برطرف کر دیا ہے۔
جج ارشد ملک کو برطرف کرنے کی منظوری چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ قاسم خان کی زیرِ صدارت سات رُکنی ججز نے دی جن میں جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس ملک شہزاد احمد خان، جسٹس شجاعت علی خان، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس علی باقر نجفی شامل تھے۔
ارشد ملک نے دسمبر 2018 میں العزیزیہ کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔ گزشتہ سال مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک پریس کانفرنس میں جج ارشد ملک کی ایک ویڈیو جاری کی تھی جس میں مبینہ طور پر وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف کے خلاف فیصلے کے لیے اُن پر دباؤ تھا۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے جج ارشد ملک کو برطرف کرنے کے فیصلے پر اظہارِ تشکر کیا ہے۔
اپنے ایک بیان میں شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ثابت ہو گیا کہ جج نے انصاف پر مبنی فیصلہ نہیں دیا تھا اور تین بار کے منتخب وزیراعظم کو ناحق سزا دی۔
اُن کا کہنا تھا کہ سچائی سامنے آنے پر انصاف کا تقاضا ہے کہ محمد نوازشریف کے خلاف سزا کو ختم کیا جائے۔
مریم نواز نے گزشتہ سال اپنی پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ جج کے اعتراف کے بعد نواز شریف کو سنایا گیا فیصلہ بھی ختم ہو جاتا ہے لہذٰا اُنہیں فوری طور پر ان الزامات سے بری کر کے رہا کیا جانا چاہیے۔
ارشد ملک نے ویڈیو میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ نواز شریف کو سزا سنانے کے بعد میرا ضمیر ملامت کر رہا ہے اور مجھے ڈراؤنے خواب آتے ہیں۔ میں اس کا ازالہ کرنا چاہتا ہوں۔ نواز شریف پر نہ ہی کوئی الزام ہے، نہ ہی کوئی ثبوت ہے۔ میں نے میاں صاحب سے زیادتی کی۔
جج نے کہا تھا کہ نواز شریف تک یہ بات پہنچائی جائے کہ ان کے کیس میں جھول ہے اور ان کے خلاف ایک دھیلے کی بھی منی لانڈنگ کا ثبوت نہیں۔ جے آئی ٹی نے بیرون ملک جائیداد کی تحقیقات ہی نہیں کی۔
جج ارشد ملک کا موقف تھا کہ سزا کا فیصلہ قانون سے متصادم ہے اور کیس میں دوہرا معیار اپنایا گیا جو غیر قانونی ہے اور معاملات کو مشکوک بناتا ہے۔ لندن فلیٹس کا پاناما کیس سے کوئی تعلق نہیں بنا۔ حسین نواز پاکستانی شہری نہیں۔ حسین نواز کے متعلق کوئی ثبوت نہیں ملا کہ پیسے سعودی عرب بھجوائے گئے۔
جج ارشد ملک نے کہا تھا کہ ان کی ایک غیر اخلاقی ویڈیو کے ذریعے انہیں نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے بلیک میل کیا گیا۔
گزشتہ سات جولائی کو احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو سامنے آنے کے حوالے سے رجسٹرار احتساب کورٹ نے جج ارشد ملک کا تردیدی بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ مجھ پر بالواسطہ یا بلا واسطہ کوئی دباؤ نہیں تھا۔ کوئی لالچ بھی میرے پیش نظر نہیں تھی۔ میں نے یہ فیصلہ خدا کو حاضر ناظر جان کر قانون و شواہد کی بنیاد پر دیا تھا۔
جج ارشد ملک نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پریس کانفرنس کے ذریعے مجھ پر سنگین الزامات لگا کر میرے خلاف سازش کی گئی۔ الزامات لگا کر میرے ادارے، میری ذات اور میرے خاندان کی ساکھ کو متاثر کرنے کی سازش کی گئی۔ مریم نواز کی پریس کانفرنس میں دکھائی گئی ویڈیو جعلی اور جھوٹی ہے۔ اس ویڈیو میں ملوث افراد کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائے۔
گزشتہ سال جج ارشد ملک نے چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک خط تحریر کیا تھا جس کے ساتھ ان کا ایک بیان حلفی بھی موجود تھا جس میں انہوں نے اس کیس میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی کوشش کی۔
اس بیان حلفی میں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کی طرف سے خود کو بلیک میل کیے جانے کا دعویٰ کیا اور کہا تھا کہ ان کو حسین نواز نے بھاری رشوت کی بھی پیش کش کی۔
اس بیان حلفی کے جاری ہونے کے کچھ ہی دیر بعد ترجمان اسلام آباد ہائی کورٹ نے میڈیا کو آگاہ کیا کہ جج ارشد ملک کی خدمات وزارت قانون کو واپس کر دی گئی ہیں۔