پاکستان میں احتساب عدالت کے سابق جج ارشد ملک ویڈیو اسیکنڈل میں ایک نئی صورتحال سامنے آئی ہے اور وفاقی تحقیقاتی ادارے نے جج ارشد ملک کی درخواست پر بلیک میلنگ، غیرقانونی ریکارڈنگ کرنے اور دکھانے کے الزام میں مریم نواز سمیت مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت اور ویڈیو ریکارڈنگ میں ملوث افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے۔
دوسری جانب، ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے مبینہ طور پر ویڈیو ریکارڈ کرنے والے ایک شخص کو گرفتار کر لیا ہے۔
وائس آف امریکہ کے پاس موجود ایف آئی آر کی کاپی کے مطابق جج ارشد ملک نے وزارت قانون و انصاف کے جوائنٹ سیکرٹری محمد عمر عزیز کے توسط سے ایف آئی آے میں مقدمہ درج کرایا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ مریم نواز اور مسلم لیگ(ن) کے دیگر قائدین نے میری بلیک میلنگ کے ذریعے ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں من پسند تبدیلی کی اور اس ویڈیو کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہوئے میری ذات اور عدلیہ کو بطور ادارہ بدنام کیا۔
ایف آئی آر میں جج ارشد ملک کا کہنا ہے کہ ’’یہ بات کلیئر ہےکہ بلیک میلر خفیہ طریقے سے آڈیو اور ویڈیو ریکارڈ کرتے رہے۔ اس وقت حیرانگی ہوئی کہ مریم نواز، شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، خواجہ آصف، پرویز رشید، رانا تنویر اور عظمیٰ بخاری نے لاہور میں پریس کانفرنس کی جہاں خفیہ اور غیرقانونی طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو چلائی گئی۔ اس ویڈیو مواد کو ٹیمپر کیا گیا اور الیکٹرونک فورجری بھی کی گئی‘‘۔
انھوں نے بتایا کہ ’’اس ویڈیو کے ذریعے میری عزت اچھالی گئی اور میرے خاندان کو بدنام کیا گیا۔ یہ ویڈیو میری سروس کے مستقبل پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔ مریم نواز اور دیگر نے ویڈیو کا مواد ٹیمپر کیا اور الیکٹرونک فارجری کی گئی۔ لہٰذا، تمام افراد جن کے نام بتائے گئے ہیں ان سب کےخلاف قانونی کارروائی کی جائے‘‘۔
اس ایف آئی آر کے مطابق، پہلے سے موجود ویڈیو اسکینڈل میں ملوث افراد میں ایک نیا نام بھی سامنے آیا ہے اور جج ارشد ملک کا دعویٰ ہے کہ ویڈیو ریکارڈ کرنے والے شخص میاں طارق نے مبینہ طور پر یہ ویڈیو میاں رضا نامی شخص کو بیچ دی تھی۔
جج ارشد ملک کی ایف آئی اے کو درج کروائی گئی اس ایف آئی آر پر میاں طارق کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
جج ارشد ملک کا کہنا ہے کہ ’’جب ملتان میں ڈسٹرکٹ جج تھا تو میاں طارق نے غیر اخلاقی ویڈیو بنائی۔ 5ماہ پہلے میاں طارق نے ویڈیو نون لیگی رہنما میاں رضا کو بیچ دی اور اسی ویڈیو سے ناصر جنجوعہ، ناصر بٹ، خرم یوسف، مہرغلام جیلانی نے بلیک میل کیا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ویڈیو کے ذریعے بلیک میل کرکے کہتے تھے نواز شریف کی مدد کرو۔ مجھے بلیک میل کرکے کہا جاتا تھا کہ کہو نواز شریف کیخلاف فیصلہ دباؤ میں دیا۔ بلیک میلر چاہتے تھے کہ احتساب کے عمل کو اسکینڈلائز کیا جائے۔ اپریل2019 میں حسین نواز شریف سے مدینہ میں ملاقات ہوئی جس میں رشوت کی پیشکش کی گئی۔ لیکن میں نے انکار کر دیا‘‘۔
اس ایف آئی آر کے اندراج کے بعد ایف آئی اے نے ایک ملزم میاں طارق محمود کو گرفتار کر لیا ہے اور ایف آئی اے کے مطابق اس شخص کو اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون سے گرفتار کیا گیا۔
گرفتاری کے بعد ملزم کو سخت سیکورٹی میں اسلام آباد میں سول جج شائستہ کنڈی کی عدالت میں پیش کیا گیا، جہاں ایف آئی اے تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزم طارق محمود ملتان کا رہائشی و کاروباری شخص ہے اور جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل میں بھی ملوث ہے۔ اسے اسلام آباد کے علاقے ایف سیون سے 16 جولائی کو گرفتار کیا گیا۔
دوران سماعت جج شائستہ کنڈی نے ملزم سے پوچھا کہ آپ کیا کاروبار کرتے ہیں؟ جس پر ملزم طارق محمود نے جواب دیا کہ میں ملتان میں ایل ای ڈیز کا بزنس کرتا ہوں۔ جج شائستہ کنڈی نے ملزم سے استفسار کیا کہ آپ پر تشدد کیا گیا ہے؟ ملزم میاں طارق نے کہا کہ اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اور اس کا ہاتھ بھی توڑ دیا گیا ہے۔ اس نے اپنی شرٹ اتار کر دکھائی۔ جج شائستہ کنڈی نے کہا کہ ملزم کے جسم پر تشدد کے نشانات ہیں۔
اس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ ملزم جھوٹ بول رہا ہے، یہ بہت تیز اور مکمل منظم لوگ ہیں جو پورے نظام کو پٹری سے اتارنا چاہتے تھے۔
ایف آئی اے نے ملزم کا 10 روزہ جسمانی ریمانڈ دینے کی استدعا کی۔ لیکن عدالت نے ملزم میاں طارق محمود کو دو روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کر دیا۔
عدالت نے حکم دیا کہ تفتیشی افسر ملزم کو 19 جولائی کو میڈیکل رپورٹ کیساتھ پیش کریں۔
میاں طارق محمود پر الزام ہے کہ انھوں نے اپنے بھائی کی مدد سے جج ارشد ملک کی مبینہ ویڈیو بنائی اور نواز شریف کو فروخت کی۔
ویڈیو اسکینڈل کے ملزم میاں طارق کی گرفتاری پر مریم نواز نے رد عمل دیتے ہوئے ٹوئیٹ کیا کہ اچھا ہوا مگر اس ویڈیو کو جج کو دکھا کر بلیک میل کرنے اور نواز شریف کو بے گناہ ہوتے ہوئے بھی زیردستی سزا دلوانے والوں کو بھی پکڑا جائے گا؟ مریم نواز نے سوال کیا کہ حسین نواز کی تصویر لیک کرنے والوں کے خلاف بھی کارروائی ہوگی؟