پاکستان کی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روک دی گئی ہے۔
دونوں جج صاحبان نے اپنے خلاف ریفرنسز کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ اسی بنا پر سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی روکی گئی ہے۔
اس بات کا اعلان چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اسلام آباد میں نئے عدالتی سال کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ از خود نوٹس کا اختیار صرف قومی اہمیت کے معاملے پر استعمال کیا جائے گا۔ جب ضروری ہوا تب عدالت از خود نوٹس لے گی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ میں نے حکومت سے تقاضا کیا تھا کہ عدالتی نظام کی تنظیم نو کے لیے نیا نظام متعارف کروائیں۔ لیکن حکومت اور پارلیمنٹ نے میری عدالتی نظام کی تنظیم نو کی تجویز پر غور نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ جوڈیشل ایکٹو ازم کے بجائے عملی کاموں کو فروغ دے رہی ہے۔ لیکن ایک طبقہ جوڈیشل ایکٹو ازم میں عدم دلچسپی پر ناخوش ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جب ضروری ہوا تو عدالت سوؤ موٹو نوٹس لے گی۔ فل کورٹ کی آئندہ میٹنگ تک از خود نوٹس کے استعمال سے متعلق مسوّدہ تیار کر لیا جائے گا۔ جسٹس کھوسہ کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ عدالت کا سوؤ موٹو سے گریز زیادہ محفوظ اور کم نقصان دہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے گھر کو درست کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ گزشتہ عدالتی سال کے آغاز پر زیر التوا مقدمات کی تعداد 18 لاکھ 10 ہزار تھی۔ لا اینڈ جسٹس کمیشن کے مطابق یہ تعداد کم ہو کر 17 لاکھ 80 ہزار رہ گئی ہے۔
جسٹس کھوسہ کے مطابق گزشتہ سال سپریم کورٹ میں 19 ہزار 751 مقدمات کا اندراج ہوا جبکہ عدالت نے ایک سال میں 57 ہزار 684 مقدمات نمٹائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اختلافی آواز کو دبانے کے حوالے سے بھی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اختلاف کو برداشت نہ کرنے سے اختیاری نظام جنم لیتا ہے اور کسی کی آواز یا رائے کو دبانا بد اعتمادی کو جنم دیتا ہے۔ ان کے بقول بد اعتمادی سے پیدا ہونے والی بے چینی جمہوری نظام کے لیے خطرہ ہے۔
سپریم جوڈیشل کونسل کے بارے میں بات کرتے ہوئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق انصاف کی فراہمی کے علاوہ کونسل سے کوئی توقع نہ رکھی جائے۔ کونسل کسی بھی قسم کے خوف، بدنیتی یا دباؤ کے بغیر اپنا کام جاری رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کے تمام ممبران اور چیئرمین اپنے حلف پر قائم ہیں۔ کونسل اپنی کارروائی میں آزاد اور بااختیار ہے۔
جسٹس کھوسہ نے سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کو مشکل ترین عمل قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت سپریم جوڈیشل کونسل میں 9 شکایات زیرِ التوا ہیں جن میں صدر مملکت کی جانب سے دائر کردہ دو ریفرنسز بھی شامل ہیں۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ صدر مملکت کی جانب سے بھجوائے گئے دونوں ریفرنسز پر جوڈیشل کونسل کارروائی کر رہی ہے لیکن ان ریفرنسز کو عدالت میں چیلنج کیے جانے کے باعث کارروائی کو روک دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کی جانب سے کسی جج کے خلاف کی جانے والی شکایت سپریم جوڈیشل کونسل کی رائے پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ آئین صدر مملکت کو اختیار دیتا ہے کہ وہ کونسل کو کسی جج سے متعلق تحقیقات کی ہدایت دیں۔
یاد رہے کہ حکومت نے سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس محمد کریم خان آغا کے خلاف حلف کی خلاف ورزی اور مس کنڈکٹ کی شکایات کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا ہے۔
ریفرنس میں ان دونوں ججوں پر اثاثوں کو چھپانے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔