پاکستان میں حزب اختلاف کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے بعد حالات کشیدہ ہوتے جارہے ہیں۔
جمعرات کو حکومت اور حزبِ اختلاف کے درمیان یہ کشیدگی اس وقت پیدا ہوئی جب جمعیت علمائے اسلام (ف)کی ذیلی تنظیم انصار الاسلام کے کارکنوں کو گرفتار کرنے کے لیے پولیس کی بھاری نفری پارلیمنٹ لاجز پہنچی۔
اس دوران پولیس اور انصار الاسلام کے کارکنوں کے درمیان تصادم کی صورت حال پیدا ہوگئی جس کے باعث اپوزیشن کے اراکین اسمبلی خواجہ سعد رفیق، سینیٹر کامران مرتضیٰ اور آغا رفیع اللہ زخمی ہوگئے۔
پولیس نے انصار الاسلام کے ایک درجن سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر کے پولیس اسٹیشن منتقل کردیا جب کہ جے یو آئی (ایف) کے رکن اسمبلی جمال الدین اور صلاح الدین کو پولیس اپنے ساتھ لے گئی۔
وزیر داخلہ شیخ رشید نے کہا کہ انصارالاسلام ایک جتھہ ہے جو کالعدم ہوچکا ہے اور قانون ہاتھ میں لیں گے تو کوئی رعایت نہیں ہو گی۔
اس معاملے پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جتھے پارلیمنٹ لاجز پہنچے تھے جس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
انہوں نے کہا کہ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے نہیں دیں گے۔ اگر حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کو کوئی خطرہ ہے تو انہیں تحفظ دیا جائے گا۔
واقعے کے فوری بعد مولانا فضل الرحمان پارلیمنٹ لاجز پہنچ گئے اور حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے حزب اختلاف کے اراکین اسمبلی کو درپیش خطرے کے سبب انصار الاسلام کے کارکن پارلیمنٹ لاجز پہنچے۔ تاہم، بقول ان کے، انہیں گرفتار کرنے کی کارروائی پولیس کا غیر قانونی اقدام ہے۔
مولانا فضل الرحمان نے حکومت کے اس اقدام کے خلاف کارکنوں کو اسلام آباد پہنچنے اور دیگر شہروں میں احتجاج کرنے کی ہدایت کی جس کے بعد ملک کی متعدد اہم شاہراہیں بلاک ہیں۔
اطلاعات کے مطابق جے یو آئی (ایف)کے کارکنوں نے چاروں صوبوں میں اہم شاہراہیں بلاک کر دی ہیں اور بلوچستان میں جمعہ کو شٹر ڈاؤن کی کال دے دی ہے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ کسی کو تشدد کی اجازت نہیں دی جائے گی اور چاروں صوبوں کے چیف سیکرٹریز اور انسپکٹرز جنرل کو ہدایت کی ہے کہ ایسے مظاہروں کو روکیں۔
انہوں نے کہا کہ اپوزیشن راہ فرار چاہ رہی ہے کیونکہ تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرنے کے لیے انہیں 172 اراکین کو لانا ہوگا۔
پارلیمنٹ لاجز میں پولیس کی کارروائی کے خلاف مشترکہ اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک استحاق جمع کرا دی ہے۔
تحریک استحقاق میں کہا گیا ہے کہ پولیس کی جانب سے اراکین اسمبلی کے تقدس کو پامال کیا گیا جس کے ذمہ دار وزیر داخلہ، آئی جی اسلام آباد اور اسلام آباد انتظامیہ ہے جن سے جواب طلبی کی جائے۔
دوسری جانب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے بار کے سابق صدر سینیٹر کامران مرتضیٰ کے ساتھ پولیس کی جانب سے بدتمیزی اور تشدد کے خلاف جمعہ کو ملک بھر کی عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیا ہے۔
اس واقعے پر اسلام آباد پولیس نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انصار الاسلام پر وفاقی حکومت نے 2019 میں پابندی عائد کی تھی جس کی بنا پر اس کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اس واقعے کے بعد اسلام آباد کی انتظامیہ نے پارلیمنٹ لاجز کے باہر رینجرز تعینات کرنے کے احکامات بھی جاری کردیے ہیں۔
امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی احتجاج کی کال کے بعد جمعہ کو جے یو آئی کے کارکن پارلیمنٹ لاجز کے باہر جمع ہوسکتے ہیں۔
یاد رہے کہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے وزیر اعظم کے خلاف منگل کو عدم اعتماد کی تحریک پیش کی تھی جس پر حکومت کا کہنا ہے کہ اس کی عددی اکثریت برقرار ہے۔ وہ اس تحریک کا مقابلہ کریں گے۔