سپریم کورٹ آف پاکستان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے حکومتی ریفرنس کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کے دوران حکومتی وکیل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے جب کہ فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے ویڈیو لنک کے ذریعے اپنا بیان ریکارڈ کرا دیا ہے۔
جمعرات کو جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس میں سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر یہ الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنے اہل خانہ کے نام بیرونِ ملک جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہ کر کے ججز کے طے شدہ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی۔
جمعرات کو سماعت کے دوران فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے عدالت میں اپنا ویڈیو پیغام ریکارڈ کرایا۔ ان کا کہنا تھا کہ "میرے پاس تمام جائیدادوں کا ریکارڈ موجود ہے لیکن ہمیں ہراساں کیا گیا، میرے لندن میں موجود بیٹے کو بھی ہراساں کیا گیا۔"
کیس کی سماعت کرنے والے دس رکنی فل کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کو ویڈیو لنک پر بیان دینے کی اجازت دی تھی۔
جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے کیا کہا؟
جسٹس فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے کہا کہ میرا نام شناختی کارڈ پر سرینا عیسیٰ ہے۔ میری والدہ اسپینش ہیں اور میرے پاس اسپینش پاسپورٹ ہے۔
الزام لگایا گیا کہ میں نے جج کے آفس کا غلط استعمال کیا جب میرے شوہر وکیل تهے تو مجهے پاکستان کا پانچ سال کا ویزا جاری ہوا۔ میرا ویزا ختم ہوا تو نئے ویزے کے لیے اپلائی کر دیا۔ جب دوسرا ویزا جاری ہوا وہ سپریم کورٹ کے جج نہیں تھے۔ جنوری 2020 میں مجھے صرف ایک سال کا ویزا جاری ہوا یہ ویزا جاری کرنے سے پہلے ہراساں کیا گیا۔ ہراساں کرنے کے لیے کم مدت کا ویزا جاری کیا گیا۔
جائیدادوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ پہلی جائیداد 2004 میں برطانیہ میں خریدی۔ کراچی میں امریکن سکول میں ملازمت کرتی رہی۔ وکیل ریحان نقوی میرے ٹیکس معاملات کے وکیل تھے۔ گوشوارے جمع کرانے پر حکومت نے مجھے ٹیکس سرٹیفکیٹ جاری کیا۔ میرا ٹیکس ریکارڈ کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا گیا۔ ایف بی آر سے ریکارڈ کی منتقلی کا پوچھا تو کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ کلفٹن بلاک 4 میں جائیداد خریدی تھی جو فروخت کر دی گئی۔ شاہ لطیف میں خریدی گئی پراپرٹی بھی فروخت کر دی۔ میری زرعی زمین میرے اپنے نام پر ہے۔ زرعی زمین کا خاوند سے تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ میرے وکیل ریحان نقوی نے مشورہ دیا کہ فارن کرنسی اکاؤنٹ کھلوائیں۔ حکومت کو میری زمین کے بارے میں پتا ہے۔ مجھے یہ ریکارڈ حاصل کرنے کے لیے بڑی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ایف بی آر میں گھنٹوں انتظار کرایا گیا۔ ٹیکس تفصیلات کراچی سے اسلام آباد منتقلی کا پوچھا جس کا کوئی جواب نہیں ملا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہم نے نوٹس کیا ہے کہ آپ کے پاس ریکارڈ موجود ہے۔ ہمارے لیے مسئلہ ہے میرٹ کا جائزہ نہیں لے سکتے۔
جسٹس فائز کی اہلیہ نے کہا کہ رقم بینک اکاؤنٹ سے لندن بھیجی گئی۔ میرے نام سے رقم باہر منتقل ہوئی۔ ایک پراپرٹی 236000 پاؤنڈز میں خریدی۔ اسٹینڈر چارٹر بینک کے فارن کرنسی اکاؤنٹس میں سات لاکھ پاونڈز کی رقم ٹرانسفر کی گئی۔
اُنہوں نے بتایا کہ یہ تمام دستاویزات جو میں نے دکھائی ہیں اصلی ہیں۔ میرا لندن اکاؤنٹ بھی صرف میرے نام پر ہے۔ 245000 پاؤنڈز سے 2013 میں تیسری جائیداد خریدی۔ اس پراپرٹی میں میرا بیٹا رہتا ہے۔ 270000 پاؤنڈز سے پراپرٹی اپنے اور بیٹی کے نام خریدی۔ یہ پراپرٹی میرے خاوند کے نہیں میرے اور بیٹی کے نام ہے۔
جسٹس عمر عطا نے کہا کہ آپ کے پاس سوالات کے مضبوط جواب ہیں۔ متعلقہ اتھارٹیز کو ان دستاویزات سے مطمئن کریں، آپ کے حوصلے کی داد دیتے ہیں۔
فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے کہا کہ مجھ سے یہ بات پہلے کیوں نہیں پوچھی گئی۔ 13 ماہ میں نے انتظار کیا۔ میرے بیٹے کو انگلینڈ میں ہراساں کیا گیا۔ میں کسی قسم کی رعایت نہیں مانگتی، میرے ساتھ صرف عام شہریوں جیسا سلوک کیا جائے۔
عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسی کی اہلیہ کے 2018 کے ٹیکس گوشواروں کا ریکارڈ سیل لفافے میں طلب کر لیا۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج کی اہلیہ نے ایف بی آر کی بہت شکایت کی ہے۔
فروغ نسیم نے کہا کہ اگر ایف بی آر نے زیادتی کی تو براہ راست شکایت وزیر اعظم کے پاس جائے گی۔
فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے کہا کہ میں لندن کی جائیدادیں 2018 کے گوشواروں میں جمع کرا چکی ہوں جس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ بہت بہادر اور حوصلہ مند خاتون ہیں۔ ہم آپ کے حوالے سے مطمئن ہیں۔ خریداری کے ذرائع سے بھی مطمئن ہیں۔ اس پر فیصلہ متعلقہ اتھارٹی نے کرنا ہے، آدھا گھنٹہ سن کر محسوس ہوا کہ آپ کے پاس اپنا موقف پیش کرنے کے لیے کافی کچھ ہے۔
فروغ نسیم کے دلائل مکمل
حکومتی وکیل فروغ نسیم نے اپنے دلائل کے آخری روز کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل بدنیتی کے ساتھ نیک نیتی کا بھی جائزہ لے سکتی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کسی جگہ بدنیتی ہو تو عدالت جائزہ لینے کے لیے بااختیار ہے اور اپنے اختیارات پر سمجھوتہ نہیں کرے گی۔
فروغ نسیم نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ تشدد کے بغیر حاصل مواد قابل قبول دستاویز ہیں۔ برطانیہ میں بھی جاسوسی اور چھپ کر تصویر بنانے کو قابل قبول شواہد قرار دیا گیا۔
اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ میری جاسوسی ہو سکتی ہے۔ میں گالف کلب جاتا ہوں کیا میری تصاویر لی جاتی ہیں۔ یہ تو ایسے ہی ہو گا جیسے جمہوریت سے فاشزم کی طرف بڑھا جائے۔ فروغ نسیم نے جواب دیا کہ میں فاشزم کی بات نہیں کر رہا۔ یہاں بات شواہد اکھٹا کرنے کی ہو رہی ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ کوئی نہیں کہتا کہ جج جوابدہ نہیں ہے۔ جج چاہتا ہے کہ اس کی پرائیویسی بھی ہو اور عزت کا خیال بھی رکھا جائے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین کے مطابق وزیراعظم کے پاس نئی وزارت بنانے کا اختیار ہے۔ لیکن وزیراعظم کے پاس نئی ایجنسی بنانے کا اختیار کدھر ہے؟ فروغ نسیم نے کہا کہ وزیراعظم کو کوئی بھی چیز کابینہ کو بھیجنے کا اختیار ہے۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ ایسٹ ریکوری یونٹ (اے آر یو) وفاقی حکومت کیسے ہو گئی۔ اے آر یو نے ایف بی آر سے ٹیکس سے متعلق سوال کیسے کیا؟ اے آر یو کسی شہری پر قانون کے بغیر کیسے ہاتھ ڈال سکتا ہے۔
حکومتی وکیل فروغ نسیم نے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں دھرنا فیصلے کی وجہ سے کچھ حلقے خوش نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا دھرنا فیصلے سے آسمان گر پڑا۔ اگر دھرنا کیس میں نظرثانی اپیل خارج ہوتی ہے تو کیا آسمان گر پڑے گا۔
سماعت کے دوران وزیراعظم کی صدر کو بھجوائی گئی سمری ماننے کے حوالے سے فروغ نسیم نے کہا کہ صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس سے اختلاف نہیں کر سکتے۔
جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ حکومت کے عام معاملات میں صدر مملکت کو رائے بنانے کی ضرورت نہیں، لیکن جب بات آرٹیکل 209 کی آئے گی تو صدر مملکت کو اپنی رائے بنانی ہو گی۔
فروغ نسیم نے ججز کی جاسوسی کے الزام کی تردید کی اور کہا کہ بے نظیر بھٹو کے مقدمے میں فون ریکارڈ ہو رہا تھا۔ یہاں تو کسی جج کی جاسوسی نہیں کی گئی۔ نہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی جاسوسی ہوئی نہ ہی کسی اور جج کی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ہے کیا؟
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس کے کے آغا کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیے تھے۔ ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرونِ ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا پہلا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہو چکی ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جسے گزشتہ دنوں کونسل نے خارج کر دیا تھا۔
بعد ازاں جسٹس فائز عیسیٰ نے عدالتِ عظمٰی میں سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر کردہ ریفرنس کے خلاف ایک پٹیشن دائر کی جس پر عدالت نے فل کورٹ تشکیل دیا تھا۔ جسٹس عمر عطا بندیال اس بینچ کی سربراہی کر رہے ہیں۔
جسٹس فائز عیسیٰ کے وکیل منیر اے ملک اور بابر ستار نے دلائل مکمل کر لیے ہیں جن میں انہوں نے حکومتی ریفرنس کو بدنیتی قرار دیا ہے۔
اس ریفرنس میں اٹارنی جنرل انور منصور کے مستعفی ہونے کے بعد خالد جاوید کو اٹارنی جنرل بنایا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے بھی فروری میں اس کیس کی سماعت کے دوران وفاق کی نمائندگی کرنے سے معذرت کرلی تھی۔
اس کے بعد وزیر قانون فروغ نسیم نے اپنی وزارت سے مستعفی ہوکر عدالت میں دلائل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔