چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جمعہ کو عدالت عظمٰی کے تمام 17 جج صاحبان کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ایک نجی ٹی وی چینل پر نشر ہونے والےعدلیہ مخالف انٹرویو کے خلاف کارروائی نا کرنے پر متعلقہ حکام پر کڑی تنقید اور برہمی کا اظہار کیا۔
فل کورٹ اجلاس کے دوران ملک میں الیکٹرانک میڈیا کے نگراں ادارے ’پیمرا‘ کے عبوری چیئرمین کو پاکستان کی معروف مگر متنازع کاروباری شخصیت ملک ریاض کے انٹرویو پر مبنی ویڈیو فلم سمیت اجلاس میں طلب کیا گیا اور انھیں فوری طور پرعدالت عظمٰی کے رجسٹرار کے پاس اس ضمن میں اپنی جامع رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت بھی کی گئی۔
اجلاس کے شرکاء کو ہال میں خصوصی طور پر آویزاں کی گئی اسکرین پر متنازع انٹرویو کے وہ حصے بھی دیکھائے گئے جو پروگرام میں وقفوں کے دوران ریکارڈ کیے گئے تھے، جن میں ملک ریاض کو ٹاک شو کے دونوں میزبانوں، مبشر لقمان اور مہر بخاری، کے ساتھ خوش گپیاں کرتے اور یہ اعتراف کرتے دیکھا گیا کہ انٹرویو ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت اور محض عدلیہ خصوصاً چیف جسٹس کو بدنام کرنے کے لیے نشر کیا گیا۔
چیف جسٹس نے پیمرا کے چیئرمین سے مخاطب ہوتے ہوئے انتہائی سخت لہجے میں پوچھا کہ سرکار نے عدلیہ کے خلاف ’’سازش‘‘ پر مبنی اس انٹرویو کا نوٹس کیوں نہیں لیا اور عدالت عظمٰی کو ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔
’’عدلیہ کا ہر روز تمسخر اُڑایا جاتا ہے مگر آپ لوگ وہاں (پیمرا) میں بیٹھے کیا کرتے رہتے ہو؟ آپ نے خود اس پر اب تک کارروائی کیوں نہیں کی؟ آپ میرے رجسٹرار کے پاس اپنی رپورٹ جمع کرائیں تاکہ ہم دیکھیں کہ آپ لوگ کیا کرتے رہے ہیں۔‘‘
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین میں پارلیمان کو بھی پابند کیا گیا ہے کہ وہ عدالتی معاملات پر بحث نہیں کر سکتی مگر میڈیا پر ایسی بحث کو نہیں روکا جا رہا اس لیے عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ اس (میڈیا میں عدالت پر تنقید) کے خلاف پیمرا نے اب تک کیا اقدامات کیے ہیں۔
’’یہ (ملک ریاض کا انٹرویو) واضح طور پرعدلیہ کے خلاف باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت کی گئی سازش کی نشاندہی کرتا ہے جس کا مقصد سپریم کورٹ کو متنازع بنانا، زیر سماعت مقدمات پر اثر انداز ہونا اور عدالت اور جج صاحبان کے خلاف نفرت، (ان کا) تمسخر اُڑانا یا تضحیک ہے۔‘‘
پیمرا کے چیئرمین چیف جسٹس کی طرف سے اٹھائے گئے کسی بھی سوال کا تسلی بخش جواب دینے سے قاصر رہے۔