ایک بیان میں طالبان نے کہا ہے کہ ملا برادر نے، دوحہ میں ہونے والی میٹنگز کے دوران خلیل زاد اور جنرل اسکاٹ ملر سے بھی ملاقات کی ہے
جمعرات کے روز افغانستان میں مفاہمتی عمل کے لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی، زلمے خلیل زاد اور طالبان دونوں نے اپنے اپنے بیانات میں کہا ہے کہ تین روز کی میٹنگز کے بعد اب دونوں فریق آئندہ دو روز اندرونی طور پر صلاح مشورہ کریں گے جس کے بعد وہ ہفتے کے دن دوبارہ ملاقات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
خلیل زاد نے اپنے ٹوئٹر پر کہا ہے کہ دوحہ میں طالبان کے ساتھ تین روز کے ٹھوس مذاکرات مفید تھے۔ بقول اُن کے،’’ہم افہام و تفہیم اور آخر کار امن کی جانب سست رفتار مگر مستحکم پیش قدمی جاری رکھیں گے‘‘۔
خلیل زاد کا مزید کہنا تھا کہ ’’ایک ایسے وقت میں جب دوحہ میں بات چیت جاری ہے، کابل میں ایک ایسی قومی ٹیم کی تشکیل کی جانب بھی پیش رفت ہوئی ہے جو خود افغانوں کے درمیان ڈائیلاگ اور طالبان کے ساتھ بات چیت میں شامل ہونے کو تیار ہو۔‘‘
دریں اثنا، طالبان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملا برادر نے، دوحہ میں ہونے والی میٹنگز کے دوران خلیل زاد اور جنرل اسکاٹ ملر سے بھی ملاقات کی ہے۔
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ’’ہمارے دو اہم مسائل ہیں۔ ہمارے لیے افغانستان سے تمام غیر ملکی فورسز کی واپسی ایک اہم مسئلہ ہے۔ اور امریکہ کی جانب سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان کی سر زمین کو امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کے خلاف استعمال نہیں کیا جانا چاہیے‘‘۔
سہیل شاہین نے بتایا کہ اس دو دن کے وقفے میں دونوں طرف کے ٹیکنیکل گروپ جن مسائل پر اپنی تمام تر توجہ مرکوز کریں گے، ان کا تعلق، ترجمان کے الفاظ میں ’’افغانستان سے امریکی قیادت والی غیر ملکی فورسز کے مکمل انخلا سے ہے‘‘۔
ادھر افغان صدر غنی نے کہا ہے کہ صرف افغانستان کے عوام ہی اپنے ملک میں امن کے کے لئے ’ریڈ لائنز‘ کا فیصلہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی افغانستان کے عوام پر امن مسلط نہیں کر سکتا اور انکی حکومت ملک کے
لئے کسی عارضی امن کو قبول نہیں کرے گی۔
مسٹر غنی جمعرات کے روز افغان خواتین کے اس اجتماع سے خطاب کر رہے تھے، جس میں ملک کے 34 صوبوں سے نمائندہ خواتین شرکت کر رہی تھیں۔
ان ایکٹوسٹ خواتین کا کہنا تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر ایسےامن کو قبول نہیں کریں گی، جس میں ان کے حقوق کی ضمانت نہ دی گئی ہو۔ حال ہی میں دو افغان خواتین نے اخبار ’نیو یارک ٹائمز‘ کو اپنی مایوسی کے بارے میں بتایا تھا کہ موجودہ امن بات چیت کےابتدائیہ میں عورتوں کے حقوق کو افغانستان کے اندرونی معاملے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
اخبار کے الفاظ میں، ’’بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہ سمجھتی ہیں کہ امریکہ کو عورتوں کے حقوق کا نفاذ کرنا چاہئے۔ تاہم،افغانستان میں عورتوں کی بہتری کا واحد اور پائیدار راستہ، خود افغانستان کے اندر مباحثے کے ذریعہ ہے“۔
امریکہ کے موقر اخبارات نے ان اہم مذاکرات کو اپنی روزانہ سرخیوں میں جگہ دی ہے۔
روزنامہ ’نیویارک ٹائمز‘ نے اس ہفتے مزاکرات کے پہلے دن لکھا تھا کہ”پیر کو ہونے والے اجلاس میں افغانستان میں امریکی اور نیٹو فورسز کے کمانڈر، جنرل آسٹن ملر کی موجودگی اس بات کی مظہر ہے کہ مذاکرات اب طالبان کو ایک ایسے وعدے کا پابند رکھنے کے لئے کسی مکینزم کی تفصیلات کی جانب بڑھ رہے ہیں کہ القاعدہ جیسے گروپ افغان سرزمین کا استعمال نہیں کریں گے اور اس طرح امریکہ اور نیٹو کی فوجوں کے انخلا کی تفصیلات کی جانب بھی“۔
اٹھائیس فروری کو افغانستان کے مختلف حصوں میں قومی سیکورٹی فورسز کے دن کے طور پر منایا گیا۔ صدر اشرف غنی نے سی این این کو دئے جانے والے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ گزشتہ چار برس میں افغانستان میں بڑی تعداد میں پولیس اور فوج کے اہل کار ہلاک ہوئے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ نے اس ہفتے کے شروع میں ایک نئی رپورٹ جاری کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال افغان تنازعے سے منسلک واقعات میں لگ بھگ چار ہزار عام شہری ہلاک ہوئےتھے۔
صدر غنی نے یہ بھی کہا کہ ان ہی کی کوشش کے نتیجے میں دنیا طالبان کے ساتھ بات کرنے کو تیار ہوئی ہے۔