رسائی کے لنکس

طالبان کو قطر مذاکرات سے ‘مفید نتائج’ کی توقع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

افغان طالبان نے کہا ہے کہ انہیں امریکہ کے ساتھ قطر کے دارالحکومت دوحہ میں جاری بات چیت کے تازہ دور سے ‘‘واضح اور مفید نتائج’’کی توقع ہے ۔

طالبان ترجمان سہیل شاہین کے مطابق دوحہ میں جاری بات چیت کا محور وہی دو معاملات ہیں جو 17 سال سے جاری تنازع کے اہم معاملات ہیں افغانستان سے غیر ملکی افواج کا انخلا اور اس بات کو یقینی بنانا کہ افغان سر زمین کوئی دہشت گرد گروپ یا فرداستعمال نہیں کرے گا۔

در یں اثنا طالبان تحریک کے بانیوں میں شامل ملا عبدالغنی بردار بھی قطر پہنچ گئے ہیں جنہیں گزشتہ سال اکتوبر میں پاکستان نے رہا کیا تھا ۔گزشتہ ماہ ہی طالبان نے انہیں قطر کے سیاسی دفتر کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئےطالبان ترجمان شاہین نے کہا کہ ملا بردار دوحہ میں ‘‘تعارفی بات چیت ’’میں شامل ہو ں گے تاہم انہوں نے اس بات کی وضاحت نہیں کی کہ کیا وہ بات چیت کے باقی دور میں بھی شریک رہیں گے یا نہیں۔ تاہم طالبان قبل ازیں یہ کہہ چکے ہیں کہ ملا بردار کو ذاتی طور پر ان مذاکرت میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کے بقول وہ پہلے ہی طالبان مذاکراتی ٹیم کا اعلان کر چکے ہیں۔

قبل ازیں رواں ماہ طالبان کی طرف سے اعلان کردہ 14 رکنی مذاکراتی ٹیم میں ‘ حقانی نیٹ ورک ’کے سربراہ سراج حقانی کے چھوٹے بھائی انس حقانی بھی شامل ہیں۔

افغانستان میں تعینات نیٹو فورسز کے خلاف ہونے والے بعض مہلک حملوں کا الزام حقانی نیٹ ورک پر عائد کیا جاتا ہے۔ افغان حکومت یہ عندیہ دے چکی ہے کہ وہ انس حقانی کو رہا کرنے کا کوئی ارداہ نہیں رکھتی ہے جنہیں سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ گرفتار ی کے وقت انس ایک طالب علم تھے اور وہ عسکری کارروائیوں میں کبھی بھی ملوث نہیں رہے ہیں ۔ تاہم افغان انٹلی جنس انس کو طالبان کی طرف سے شوشل میڈیا پر ہونے والے پروپگنڈا کا ذمہ دار ٹھہریا جاتا ہے۔

دوسری طرف بعض مبصرین کا خیال ہے کہ انس کا طالبان کی مذاکراتی ٹیم میں شامل کرنے کا مقصد افغان حکومت پر ان کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالنا ہے۔

قطر میں ہونے والی بات چیت میں امریکی وفد کی قیادت امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کر رہے ہیں۔

گزشتہ سال ستمبر میں افغان مفاہمت کے نمائندہ خصوصی مقرر ہونے کے بعد وہ متعدد بار خطہ کا دورہ کر چکے ہیں۔خلیل زاد سوائے ایران کے ان تمام ملکوں کے ساتھ براہ راست بات چیت کر چکے ہیں جن کے افغانستان میں مفاد ہیں۔

گزشتہ ماہ قطر میں چھ روز تک جاری رہنے والےمذاکرات کے دوران طالبان اور امریکہ نے دو اہم معاملات پر بات چیت کے ذریعے حل کے لیے دوورکنگ گروپ قائم کیے تھے۔

طالبان ترجمان شاہین نے کہا ہے کہ یہ ورکنگ گروپ اپنی ‘‘سفارشات اور ایک ڈرافٹ معاہد ہ ’’وضع کریں گے۔

2001ء میں افغانستان میں شروع ہونے والا تنازع امریکہ کے لیے ایک طویل ترین جنگ بن گیا ہے اور واشنگٹن میں کئی حلقے جو موجودہ انتظامیہ کے قریب ہیں کا خیال ہے کہ صدر ٹرمپ اس معاملہ کو جلد حل کرنے چاہتے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے 2017 ء میں افغانستان کے لیے اپنی نئی حکمت عملی کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا‘ میرا پہلے افغانستان سے (فوجیں ) واپس بلانے کا ارادہ تھا اور تاریخی طور میں اپنے ارداوں پر عمل کرنا چاہتا ہوں’’

تاہم اس خدشے کی بنا پر کہ فوری انخلا سے‘‘ ایک خلا پید ا ہو سکتا ہے جو داعش ، القاعدہ جسے دہشت گروپ فوری پر کر سکتے ہیں’’

انہوں نے طالبان کو مذکرات کی میز پر لانے کے لیے جنگ کے محاز پر اپنے جرنیلوں کو زیادہ اختیار دینے کے ساتھ ساتھ دوسری طرف ہمسایہ ملک پاکستان پر دباؤ بڑھا دیا تھا۔

امریکہ ایک عرصے سے طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام پاکستان پر عائدکرتا آ رہا ہے ،تاہم اسلام آباد اس الزم کو مسترد کرتا ہے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ کہ متحدہ عرب امارات میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والی بات چیت پاکستان کی کوششوں سے ہوئی تھی جن میں میزبان ملک اور سعودی عرب کے نمائندوں نے بھی شرکت کی تھی۔

افغان تنازع کے حل کی بات چیت میں سب سے بڑی پیش رفت اس وقت ہوئی جب امریکی عہدیداروں نے کابل حکومت کی شرکت کے بغیر طالبان کا امریکہ کے ساتھ براہ راست بات چیت کا مطالبہ مان لیا تھا۔

اس کے بعد سے امریکہ کے طالبان سے مذاکرات جاری ہیں اور اس کے ساتھ امریکہ طالبان پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ وہ صدر اشرف غنی کی ٹیم سے براہ راست بات چیت کریں۔

تاہم طالبان تاحال کابل حکومت سے بات چیت سے انکار کر رہے ہیں گو کہ انہوں نے حال ہی میں ماسکو میں ہونے والی ایک کانفرنس کے دوران افغان سول سوسائٹی اور کئی سابق جہادی کمانڈروں سے بات چیت کی تھی۔

واشنگٹن میں قائم تحقیقاتی ادارے ‘یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس’ میں گفتگو کرتے ہوئے خلیل زاد نے کہا تھا کہ طالبان آئندہ صدارتی انتخابات سے پہلے صدر اشرف غنی کوئی فائد نہیں دینا چاہتے۔

XS
SM
MD
LG