افغان حکومت نے افغانستان میں قیامِ امن کی کوششوں کے لیے بظاہر ایک مرتبہ پھر پاکستان میں موجود ایک مذہبی شخصیت سے رابطہ کر کے انھیں اپنا کردار ادا کرنے کا کہا ہے۔
اس سلسلے میں اسلام آباد میں تعینات افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال کی حالیہ دنوں میں افغان طالبان کے لیے قابل احترام سمجھے جانے والے مولانا سمیع الحق سے چند ملاقاتیں ہو چکی ہیں اور تازہ ترین ملاقات منگل کو اکوڑہ خٹک میں مولانا کے دینی مدرسے دارالعلوم حقانیہ میں ہوئی۔
گو کہ اس بارے میں سفیر زخیلوال کی طرف سے تو کوئی تفصیلی بیان سامنے نہیں آیا لیکن منگل کو ٹوئٹر پر ان کا کہنا تھا کہ جمعیت العلمائے اسلام (سمیع الحق گروپ) کے سربراہ سے متعلقہ امور پر تعمیری تبادلہ خیال ہوا۔
افغان طالبان کے بانی رہنما ملا محمد عمر اور ان کے بعد تحریک کی قیادت سنبھالنے والے ملا اختر منصور کے علاوہ متعدد طالبان رہنما دارالعلوم حقانیہ سے ہی دینی تعلیم حاصل کر چکے ہیں اور اسی بنا پر افغان طالبان مولانا سمیع الحق کو بہت احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
جمعیت العلمائے اسلام (س) کے ایک مرکزی راہنما اور مولانا سمیع الحق کے ترجمان یوسف شاہ نے بدھ کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ افغان سفیر چاہتے ہیں کہ مولانا افغانستان میں قیام امن کے لیے کوئی کردار ادا کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا نے افغان صدر اشرف غنی سے بھی یہی کہا تھا اور سفیر زخیلوال سے ملاقات میں بھی اسی بات کا اعادہ کیا ہے کہ بیرونی قوتوں کے افغانستان سے انخلا تک مصالحتی عمل کا آگے بڑھنا مشکل ہے۔
"مولانا صاحب نے یہی فرمایا کہ میں کوشش کروں گا کہ امن قائم ہو جائے اور میں کوشش کر رہا ہوں کہ طالبان کو بھی آمادہ کر لوں لیکن بظاہر یہ ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس لیے کہ اصل مسئلہ بیرونی قوتوں کا یہاں رہنا ہے اور طالبان بھی یہ موقف دنیا کے سامنے رکھ چکے ہیں کہ جب تک بیرونی قوتیں یہاں موجود ہیں تو ہم کس سے اور کیسے مذاکرات کریں ان (بیرونی قوتوں) سے تو ہمارے مذاکرات کی تُک نہیں بنتی اور ان (افغان حکومت) کا اختیار نہیں ہے۔"
یوسف شاہ کے بقول مولانا سمیع الحق کا کہنا تھا کہ بیرونی قوتوں کے افغانستان سے چلے جانے کے بعد تمام افغان بشمول طالبان کا آپس میں بیٹھنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
امریکہ کی زیر قیادت اتحادی افواج نے 2001ء میں افغان اقتدار سے طالبان کو بے دخل کر دیا تھا لیکن 16 سال گزرنے کے باوجود یہاں قیام امن کے لیے کی جانے والی کوششیں ثمر بار نہیں ہو سکی ہیں۔
گو کہ ایک لاکھ سے زائد بین الاقوامی فوجی دسمبر 2014ء میں اپنا لڑاکا مشن مکمل کر کے افغانستان سے واپس جا چکے ہیں اور اب صرف لگ بھگ 13000 غیر ملکی فوجی ہی یہاں تعینات ہیں جو مقامی سکیورٹی فورسز کو تربیت اور انسداد دہشت گردی میں معاونت فراہم کر رہے ہیں اور ان میں اکثریت امریکی فوجیوں کی ہے۔ لیکن طالبان کا اصرار ہے کہ جب تک یہ فوجیں بھی افغانستان سے نکل نہ جائیں وہ افغان حکومت سے بات چیت نہیں کریں گے۔
حال ہی میں اسلام آباد اور کابل افغانستان، پاکستان، امریکہ اور چین کے نمائندوں پر مشتمل چار فریقی گروپ کو بھی دوبارہ فعال بنانے پر اتفاق کر چکے ہیں تاکہ مصالحتی عمل کی کوششوں کو آگے بڑھایا جا سکے۔