امریکی نائب صدر کاملا ہیرس کا بائیٖڈن ہیرس انتظامیہ کے پہلے 100 روز مکمل ہونے پر ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور میں ایم اینڈ ٹی سٹیڈیم میں واقع ویکسین سینٹر کا دورہ کیا۔ وبائی امراض کے ماہر ڈاکٹر اینتھونی فاؤچی بھی ان کے ہمراہ تھے۔
مقامی اخبار 'دی بالٹی مور سن' کے مطابق، کرونا ویکسین لینے والوں کو مخاطب کر کے، انھوں نے کہا کہ ’’آپ سب دوسروں کے لیے قابل تقلید ہیں۔‘‘
کاملا نے کہا کہ وہ ان سب لوگوں کی شکر گزار ہیں جو یہاں ویکسین لگوانے آئے۔
بدھ کے روز صدر جو بائیٖڈن کی جانب سے کانگریس سے کیے گئے پہلے خطاب کے بعد یہ نائب صدر کاملہ ہیرس کا پہلا دورہ تھا۔
صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں اپنی حکومت کے اولین 100 روز کی کارکردگی پیش کی اور اس کا آغاز ہی کرونا وائرس کی عالمی وبا اور اس سے نمٹنے کی حکومتی کوششوں کے بیان سے کیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ان کی حکومت کے ابتدائی 100 روز کے بعد وہ قوم کو بتا سکتے ہیں کہ امریکہ پھر سے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ ان کے بقول، خطرات کو امکانات میں، بحران کو مواقع میں اور رکاوٹ کو طاقت میں بدل دیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ ملکی معیشت پچھلے تین ماہ میں 6.4 فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھی ہے اور حکومت کو امید ہے کہ اگلے تین ماہ میں شرح نمو پہلے سے بہتر ہوگی۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ملک میں بے روزگاری الاونس لینے والے افراد کی تعداد وبا کے شروع ہونے کے بعد سے اب سب سے کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ امریکی ایسوسی ایشن آف ریالٹرز نے جمعرات کے روز کہا ہے کہ مارچ میں امریکیوں کی جانب سے گھروں کی خرید میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ویکسین لگوانے کی مہم اور کرونا وائرس کے کیسز میں خاطر خواہ کمی کی بدولت کاروبار کھل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ معیشت دانوں کا کہنا ہے کہ حکومتی امداد اور بے روزگاری میں کمی کی وجہ سے مستقبل میں شرح نمو کے مستحکم ہونے کی امید کی جا سکتی ہے۔ ماہرین 2021 میں امریکی معیشت کے 7 فیصد کی شرح سے نمو پانے کی پیشگوئی کر رہے ہیں۔ اگر یہ ہدف حاصل کر لیا جاتا ہے تو یہ 1984 کے بعد امریکہ کی معیشت کی تیز ترین شرح نمو ہو گی۔
آکسفورڈ اکانومکس کے چیف اکانومسٹ گریگوری ڈیکو نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم اس وقت معیشت کے تمام پہلوؤں میں تیزی دیکھ رہے ہیں۔ یہاں صحت کا شعبہ بہتر کام کر رہا ہے۔‘‘ ان کے مطابق معیشت تیزی کی جانب گامزن ہے اور لوگوں کو ملازمتیں مل رہی ہیں۔
امریکی معیشت میں یہ تیزی اس لیے بھی حیران کن ہے کیونکہ پچھلے برس مارچ میں عالمی وبا کے شروع ہونے کے بعد ملک بھر میں کاروبار منجمد ہو گئے تھے۔ پچھلے برس اپریل سے جون کے تین مہینوں میں معیشت 31 فیصد تک سکڑ گئی تھی۔ اس کے بعد معیشت میں تیزی دیکھنے میں آئی تھی۔
لیکن اے پی کے مطابق، ماہرین کا کہنا ہے کہ اب بھی وبا کے بعد 80 لاکھ ملازمتیں واپس نہیں مل سکی ہیں۔ جہاں کالجوں سے تعلیم پانے والے افراد اپنے گھروں سے ملازمتیں کر سکے ہیں، وہیں کم آمدنی والے ورکر، نسلی اقلیتیں اور وہ لوگ جن کے پاس کالج یا یونی ورسٹی کی ڈگری نہیں ہے، انہیں وبا کے دوران شدید مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔ صدر بائیڈن نے کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا تھا کہ امریکہ میں کرونا وبا کے دوران دو ملین یعنی بیس لاکھ ملازمت پیشہ ماؤں کو اپنا کام چھوڑنا پڑا ہے۔
امریکی شہر نیویارک کے مئیر بل ڈی بلاسیو نے منگل کے روز کہا ہے کہ وہ امید رکھتے ہیں کہ کرونا وائرس کی وجہ سے لگائی گئی کچھ پابندیاں جلد ہی ہٹا لی جائیں گی اور ان کے خیال میں اس برس یکم جولائی تک نیویارک شہر مکمل طور پر کھل جائے گا۔
انہوں نے نشریاتی ادارے ایم ایس این بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا شہر کاروبار، آفس، تھیٹر اور گروسری سٹور مکمل طور پر کھولنے کے لیے پوری طور پر تیار ہے۔
انہوں نے شہر میں ویکسین کی مہم کے تیزی سے جاری رہنے اور ہسپتالوں میں مریضوں کی آمد کے کم ہونے کو بطور ثبوت پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات کی ہماری طرف سے مکمل یقین دہانی کی جاتی ہے کہ ہم نیویارک شہر میں کرونا کے بڑھنے کا امکان باقی نہیں چھوڑیں گے۔