کراچی کے بعض علاقوں میں پیر کی شام شروع ہونےو الی اچانک فائرنگ اور ہنگامہ آرائی سے چار افراد ہلاک ہوگئے ہیں جبکہ متاثرہ علاقوں میں سخت کشیدگی ہے۔
پولیس کے مطابق فائرنگ کا سلسلہ پیر کی شام گلستانِ جوہر سے شروع ہوا جہاں دو گروپوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں ایک شخص ہلاک ہوگیا۔ بعد ازاں گلشنِ اقبال کے علاقے میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے دو نوجوانوں کو ہلاک کردیا۔ ابوالحسن اصفہانی روڈ پر بھی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک ہوا۔
فائرنگ کے بعد گلستانِ جوہر اور گلشنِ اقبال کے علاقوں میں صورتِ حال سخت کشیدہ ہے اور کاروباری مراکز بند ہیں۔
واضح رہے کہ سیاسی و لسانی بنیادوں پرخونریز تشدد کے واقعات نے گزشتہ کئی ماہ سے کراچی کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی سات ماہ میں شہر میں تشدد اورٹارگٹ کلنگ کی واردتوں میں کم از کم 800 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے تین سو سے زائد ہلاکتیں صرف جولائی میں ہوئیں۔
تشدد کے واقعات میں اُس وقت تیز ی آگئی تھی جب سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے 9 جولائی کو سندھ میں مقامی حکومتوں کے نظام کو ختم کرکے پرانا کمشنری نظام بحال کردیا تھا۔ کراچی کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور حکومت کی سابق اتحادی متحدہ قومی موومنٹ نے اس اقدام کی بھرپور مخالفت کی تھی۔
اندرونِ سندھ ہڑتال
دریں اثناء سندھ کے شہری علاقوں میں کمشنری نظام کے خاتمے اور بلدیاتی نظام کی بحالی کے سرکاری فیصلے کے خلاف پیر کو قوم پرستوں کی اپیل پر اندرونِ سندھ کے بیشتر اضلاع میں ہڑتال کی گئی۔
بالائی سندھ کے بیشتر اضلاع بشمول لاڑکانہ، جیکب آباد، سکھر ، دادو، خیرپور، نوشہروفیروز سمیت نواب شاہ، بدین، میر پورخاص، ٹھٹھہ اور عمر کوٹ میں شٹر ڈائون ہڑتال رہی جبکہ ٹریفک معمول سے کم رہا۔ بیشتر شہروں میں وکلاء نے بھی ذیلی عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔
سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں جزوی ہڑتال رہی جبکہ کراچی کے بعض نواحی علاقوں میں بھی کاروبارِ زندگی متاثر رہا۔ کئی شہروں میں قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں نے احتجاجی مظاہرے کیے اور ریلیاں نکالیں۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے حکومت کے نمائندوں سے کامیاب مذاکرات کے بعد ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والے صوبہ سندھ کےگورنر عشرت العباد نے سندھ کے دو شہروں کراچی اور حیدرآباد میں کمشنری نظام ختم کر کے دوبارہ 2001ء کا بلدیاتی نظام نافذ کرنے کے احکامات جاری کردیے تھے جسے سندھی قوم پرست حلقوں نے سندھ کی تقسیم کی سازش قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔
حکمران اتحاد میں شامل جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے بھی مذکورہ فیصلہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اِسے صوبہ سندھ میں ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر کا نظام‘‘ اور ’’پی پی پی کا ڈرامہ‘‘ قرار دیا تھا۔ اے این پی نے سندھ کی صوبائی کابینہ میں شامل اپنے واحد وزیر کو بھی سرکاری امور کی انجام دہی سے روک دیا ہے۔