اتوار کا دن کراچی والوں کے لئے نہایت اعصاب شکن ثابت ہوا۔ بلکہ اگر ہفتے کی رات بھی اس میں شامل کرلی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔ مختصراً کہا جائے تو یہ ویک اینڈ کراچی والوں کے لئے سیاسی گرما گرمی، ٹارگٹ کلنگ میں مرنے والوں کے افسوس ، ایک بڑی سیاسی جماعت کی حکومت سے علیحدگی کے الٹی میٹم اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انجانے خوف میں گزر گیا۔ جو رہی سہی کسر تھی وہ طویل لوڈشیڈنگ کے عذاب نے پوری کردی ۔
اتوار کے روز کراچی کے علاقے اورنگی ٹاوٴن کی ایک نشست پی ایس 94پرا نتخابات ہونا تھے ۔ یہ نشست2 اگست 2010 کو متحدہ قومی موومنٹ کے رکن سندھ اسمبلی رضا حیدر کے قتل کے بعد خالی ہوئی تھی ۔ اس نشست کے حصول میں متحدہ قومی موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور کئی آزاد امیدوارایک دوسرے کے مقابلے پر تھے۔ اے این پی نے انتخابات سے قبل ہی فوج کی تعیناتی کا مطالبہ کرتے ہوئے بصورت دیگر انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔ چنانچہ ہفتے کی رات ہی اے این پی نے باقاعدہ انتخابات کے بائیکاٹ اور اتوار کو یوم سیاہ منانے کا اعلان کردیا۔ پیپلزامن کمیٹی نے بھی اے این پی کی تائید کی ۔
اس بائیکاٹ کے ساتھ ہی ٹارگٹ کلنگ اور پرتشدد واقعات کا سلسلہ شروع ہوگیا جو اتوار کو رات گئے تک جاری رہا اور مختلف رپورٹوں کے مطابق 38 افراد لقمہ اجل بن گئے۔
اتوار کو ایک جانب تو پی ایس 94 پر پولنگ جاری تھی جبکہ دوسری جانب اے این پی یوم سیاہ منا رہی تھی ۔ اس صورتحال میں پورے حلقہ میں دن بھر خوف کی فضا قائم رہی ، اور علاقے میں پولیس اور رینجرز کا گشت جاری رہا ۔ اس کے ساتھ ساتھ ہی پورا دن ٹی وی چینلز پر کراچی کے مختلف علاقوں میں پرتشدد واقعات کی بریکنگ بھی چلتی رہیں، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ خوف کے مارے گھروں میں قید ہوگئے اور سڑکوں پر ویرانے چھا گئے۔
شام ہوتے ہوئے ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کالندن اور کراچی میں بیک وقت اجلاس شروع ہو گیا اور میڈیا میں امکان ظاہر کیا گیا کہ متحدہ نے حکمراں اتحاد سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ہے اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد رات کو صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کر کے انہیں اپنا استعفیٰ پیش کر دیں گے ۔
ان خبروں کے بعد تو گویا ایک نئے خوف نے سارے شہر میں ہلچل مچادی۔ لوگوں میں انجانا سا خوف چھا گیا کہ اگر واقعی حکومت سے علیحدگی کااعلان ہوا تو اس کی پس پردہ نتائج کیا ہوں گے۔ لوگوں نے گھروں میں پوچھنا شروع کردیا تھا کہ چار چھ دنوں کا راشن ہے یا نہیں!
ٹارگٹ کلنگ کا الزام ایک پارٹی نے دوسری اور دوسری نے تیسری کے سر ٹھہرایا۔ سرشام صوبائی وزیر داخلہ سندھ ڈاکٹر ذوالفقار مرزا نے ایک پریس کانفرنس کی جس میں انہوں نے سیاسی پارٹیوں سے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور انہیں قرار واقعی سزا دلوانے کی یقین دہانی کرائی اور مناسب وقت دیئے جانے کا مطالبہ کیا۔
دریں اثناایک سیاسی جماعت نے ٹارگٹ کلرز کو میڈیا کے سامنے پیش کئے جانے کا مطالبہ بھی کیا ۔ بعد ازاں وفاقی وزیر داخلہ نے بھی سیاسی جماعتوں سے مفاہمتی پالیسی جاری رکھنے کی درخواست کی ۔
رات کے پہلے پہر انتخابات کا غیر حتمی نتیجہ سامنے آیا تو تناوٴ کی فضاءکچھ بہتر ہوئی ۔ اسی دوران رات ساڑھے آٹھ بجے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے قوم سے خطاب کیا ۔ انہوں نے بھی مفاہمت کی پالیسی کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا ۔ وزیر اعظم کے خطاب کے بعد تمام نظریں ایوان صدر اسلام آباد میں صدر آصف علی زرداری اور گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی ملاقات پرجا ٹکیں۔
رات تقریباً پونے گیارہ بجے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان ایوان صدر پہنچے اور صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی ۔ میڈیا ذرائع کے مطابق اس موقع پر گورنر سندھ نے صدر کو اپنا استعفیٰ بھی پیش کیا تاہم صدر نے ان کا استعفیٰ منظور نہیں کیا گیااور صدر کی ملاقات کے بعد ایم کیو ایم نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ بھی واپس لے لیا ۔ ۔۔۔ اور یوں ہفتے کی رات کو پیدا ہونے والی کشیدگی، خوف اور خدشات بلآخر اتوار کے آخری لمحات کے ساتھ ساتھ ہی دم توڑ گئے۔