رسائی کے لنکس

کراچی میں بدامنی کی روک تھام، ٹھوس اقدامات کی ضرورت: تجزیہ کار


کراچی میں بدامنی کی روک تھام، ٹھوس اقدامات کی ضرورت: تجزیہ کار
کراچی میں بدامنی کی روک تھام، ٹھوس اقدامات کی ضرورت: تجزیہ کار

وفاقی وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں اِن حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ کراچی میں بدامنی کا واحد حل سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت اور مذاکرات ہیں۔

کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اب تک متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جِس سے شہر میں امن و امان کی صورتِ حال کشیدہ ہے۔سینٹر فور ریسرچ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے ایگزیکٹو ڈائرکٹر امتیاز گل نے ’وائس آف امریکہ‘ سے گفتگو میں کہا کہ ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

اُنھوں نے اِس بات پر زور دیا کہ سب سے پہلے سیاسی جماعتوں کو اپنے زیرِ سرپرستی منظم پیشہ ور گروہوں سے ہاتھ اُٹھانا ہوگا۔ دوسری طرف، پاکستان کے اندر خاص طور پر پولیس اور خفیہ اداروں کی استعداد کو بڑھانا ہوگا اور خفیہ اداروں کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا، تاکہ، اُن گروہوں کی جڑ تک پہنچا جاسکے جو شہر کے اندر لاقانونیت پھیلانےاور ٹارگٹ کلنگ جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث ہیں۔

وفاقی وزیرِ داخلہ رحمٰن ملک نے کہا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں اِن حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے خاتمے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ کراچی میں بدامنی کا واحد حل سیاسی جماعتوں کے درمیان مفاہمت اور مذاکرات ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار کرنل (ر) ریاض جعفری نے کہا کہ ضرورت اِس بات کی ہے کہ معاملات کو سلجھانے کے لیے مذاکرات کا سہارا لیا جائے۔’مذاکرات ہونے چاہئیں، اگر وہ اُس پر رضامند ہوں۔لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں جو اِس قسم کا کلچر ہے، میں نہیں سمجھتا کہ وہ آسانی کے ساتھ بات ذہن نشین کریں گے یا آمادہ ہوجائیں گے کہ چلو ’کچھ دو کچھ لو‘ کے تحت تصفیہ کر لیتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی کش مکش ہے۔‘

دوسری جانب، سیاسی تجزیہ کار پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا کہنا ہے کہ امن و امان کی صورت ِ حال میں بہتری لانے کے لیے ایک مضبوط لائحہ عمل کی ضرورت ہے، جِس میں وہاں کی سیاسی جماعتوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔

ڈاکٹر رضوی نے کہا کہ کراچی میں امن و امان کے لیے صرف حکومت، پولیس یا رینجرز کا انحصار کرنا درست نہ ہوگا، بلکہ، اِس کے لیے سیاسی قوتوں کو آگے آنا پڑے گا جِس میں ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور اے این پی شامل ہیں۔

اُن کے الفاظ میں: ’ مسئلہ یہ ہے کہ، یہ پارٹیاں ایک دوسرے پر الزام تو لگاتی ہیں لیکن تعاون نہیں کرتیں ،اور معاملات کو کنٹرول کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ تینوں کمیونٹیز کے کراچی میں جو مؤثر اور بااثر لوگ ہیں وہ ایک وسیع تر کمیٹی بنائیں اور تمام علاقوں کا دورہ کریں، خصوصاً ایسے علاقوں کا جو ہنگامہ آرائی کا شکار ہیں یا جہاں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہورہے ہیں۔ کمیٹی میں تینوں پارٹیوں کے ایسے لوگ ہونے چاہئیں جِن کو لوگ لیڈر کے طور پر مانتے ہوں۔‘

اُنھوں نے کہا کہ جب تک ایسی منظم اور مشترک کوشش نہیں ہوگی، کراچی کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ،’ فی الحال، اِس قسم کی سوچ ہمیں نظر نہیں آتی‘۔

وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے کراچی میں بدامنی کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُنھوں نے گورنر عشرت العباد اور وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ سے اِس بارے میں رپورٹ طلب کی ہے۔اُن کا کہنا تھا کہ امن و امان صوبائی معاملہ ہے اور یہ کہ وفاقی حکومت براہِ راست اِس میں دخل اندازی نہیں کرسکتی۔

کراچی میں ماضی میں بھی سیاسی اور نسلی بنیادوں پر ہلاکت خیز فسادات ہوتے رہے ہیں۔

آڈیو رپورٹ سنیئے:

XS
SM
MD
LG