کراچی —
کراچی ساحلی شہر ہے اور سمندر اس کے لئے ایک نعمت ہے۔ سمندر کی بدولت ہی اس کا موسم باقی ملک کے مقابلے میں شدید حدت سے بچا رہتا ہے۔ گویا سمندر ایک قدرتی ’شیلڈ ‘ہے۔ لیکن، انسانی ترقی کے ہاتھوں ماحولیات کو پہنچنے والے مسلسل نقصان کے سبب اب یہ ’شیلڈ‘ بھی کمزور پڑنے لگی ہے اور ماحولیات کے شعبے سے جڑے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہاں عالمی حدت کے اثرات نمایاں ہونے لگے ہیں۔
ماہرین میں اس حوالے سے بھی تشویش ہے کہ ایک جانب سطح زمین کے اوپر شہر بے ترتیب طریقے سے بڑھتا چلا جا رہا ہے، بے تحاشا اور بے ہنگم ٹریفک، صنعتوں سے نکلنے والی آلودگی، منصوبہ بندی کے بغیر کھڑی کی گئی عمارتیں اور ائیرکنڈیشننگ نظام ’گلوبل وارمنگ‘ کے خطرات کو دن دگنا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، سطح زمین سے نیچے تین ’ٹیکٹونک فالٹ لائنز‘ گزرتی ہیں جو زلزلے پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ اگر خدانہ خواستہ یہاں کسی بڑے زلزلے کا جھٹکا آیا یا سمندری طوفان نے یہاں کا رخ کیا تو اس کا انجام زبان پر لاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے، کیوں کہ قدرتی آفات سے بچنے کا یہاں کوئی نظام نہیں نا ہی اس سے لوگ آگاہ ہیں اور نہ ہی کسی نے کوئی تربیت حاصل کی ہے۔
پچھلے 59سالوں میں کراچی کے درجہ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
محکمہ موسمیات کراچی کے چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم نے ’وائس آف امریکہ‘ سے انٹرویو میں بتایا کہ، ’کراچی اور خاص کر سندھ کے موسم کا مزاج بگڑ رہا ہے۔ سنہ 2010 میں موہن جو دڑو، لاڑکانہ میں سب سے زیادہ 53 اعشاریہ 5ڈگری سینٹی گریڈ گرمی پڑی جو باعث تشویش ہے کیوں کہ تقریباً19سالوں کے دوران پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا۔‘
سینئر میٹ آفیسر ندیم فیصل نے بتایا کہ، ’گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسم تبدیل ہو رہا ہے پہلے جن علاقوں میں بارش کم ہوتی تھی اب وہاں بارشوں کی مقدار بڑھ گئی ہے۔ مثال کے طور پر جیکب آباد۔ سنہ 2011 میں یہاں ریکارڈ 300ملی میٹر بارش ہوئی جو انتہائی غیر معمولی ہے۔ایسی ہی کچھ صورتحال بلوچستان کے علاقوں جھل مگسی اور نصیر آباد میں بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔‘
’افریقن جرنل آف بائیو ٹیکنالوجی‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، شہر میں آبادی کے لحاظ سے موٹر گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب ہوائی آلودگی کا بڑھنا ہے۔ کیونکہ، گاڑیوں میں استعمال ہونے والا ایندھن فضائی آلودگی بڑھانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
ہوا جتنا زیادہ آلودہ ہوگی گرمی کی شدت اسی تناسب سے زیادہ ہوجائے گی۔ اسی لئے، ماہرین کہتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں اگر کراچی سمیت سندھ اور پاکستان میں گرمی ’قیامت‘ بھی ڈھا سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ابھی سے اس کے تدارک کے طریقے اختیار کئے جائیں۔
شہری منصوبہ بندی کے ماہر، فرحان انو رکا کہنا ہے کہ، ’کراچی کی سڑکیں اور عمارتیں دن بھر سورج کی تپش اپنے اندر جذب کرتی ہیں اور شام ڈھلتے ہی اس گرمی کو خارج کرنا شروع کردیتی ہیں۔ یہ بھی درجہ حرارت بڑھنے کا بنیادی سبب۔‘
توصیف عالم کے بقول، ’پاکستان میں اس بار سردی کا موسم معمول سے 15 دن زیادہ چلا۔ عام طور پر مارچ کا آخری اور اپریل کا ابتدائی عرصہ موسم کی تبدیلی کا ہوتا ہے۔ پاکستان میں سردیوں کی آمد مغرب سے ہوتی ہے۔ لیکن، مذکورہ مدت میں سردیاں ختم ہوجاتی ہیں جبکہ گرمی کی حدت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن، اس بار اپریل کے شروع ہوجانے کے باوجود موسم سرد رہا۔ پنجاب میں تو بارشیں اب تک ہو رہی ہیں۔ بارشوں کا ہونا اور سردی کی مدت میں اضافہ ہوجانا دونوں کلائمیٹ چینج کا اشارہ ہیں۔‘
موسم سے متعلق تشویش سے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے ہی گزشتہ دنوں ’پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی سندھ‘ کی جانب سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں متعدد ماہرین ماحولیات نے اپنے اپنے خیالات اور تحقیقی مقالے پیش کئے۔
’این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئر نگ اینڈ ٹیکنالوجی‘ کے پروفیسر ایم احمد نے اپنے مقالے میں کراچی کے علاقے گلشن اقبال کو زلزلے یا سمندری طوفان آنے کی صورت میں ٹیسٹ کیس کے طور پرجائزے کی صورت میں پیش کیا، جس کا مقصد خوف کے بجائے اس اہم ایشو کی جانب نشاندہی تھا۔
مقالے کی رو سے گلشن اقبال میں تعمیر87فیصد عمارتیں، اپنی ساخت اور تعمیری میٹریل کے حوالے سے کسی بھی طوفان یا طاقتور زلزلے سے مقابلے کی ذرہ بھی طاقت نہیں رکھتیں۔ ایسی صورتحال سے صرف عوامی آگاہی اور جدید تقاضوں کو پورا کرنے والی تربیت ہی کسی حد تک نکال سکتی ہے۔ لیکن، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہاں ایسا بھی کوئی نظام موجود نہیں۔
ماہرین میں اس حوالے سے بھی تشویش ہے کہ ایک جانب سطح زمین کے اوپر شہر بے ترتیب طریقے سے بڑھتا چلا جا رہا ہے، بے تحاشا اور بے ہنگم ٹریفک، صنعتوں سے نکلنے والی آلودگی، منصوبہ بندی کے بغیر کھڑی کی گئی عمارتیں اور ائیرکنڈیشننگ نظام ’گلوبل وارمنگ‘ کے خطرات کو دن دگنا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف، سطح زمین سے نیچے تین ’ٹیکٹونک فالٹ لائنز‘ گزرتی ہیں جو زلزلے پیدا کرنے کا باعث ہوتی ہیں۔ اگر خدانہ خواستہ یہاں کسی بڑے زلزلے کا جھٹکا آیا یا سمندری طوفان نے یہاں کا رخ کیا تو اس کا انجام زبان پر لاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے، کیوں کہ قدرتی آفات سے بچنے کا یہاں کوئی نظام نہیں نا ہی اس سے لوگ آگاہ ہیں اور نہ ہی کسی نے کوئی تربیت حاصل کی ہے۔
پچھلے 59سالوں میں کراچی کے درجہ حرارت میں دو ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ کا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔
محکمہ موسمیات کراچی کے چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم نے ’وائس آف امریکہ‘ سے انٹرویو میں بتایا کہ، ’کراچی اور خاص کر سندھ کے موسم کا مزاج بگڑ رہا ہے۔ سنہ 2010 میں موہن جو دڑو، لاڑکانہ میں سب سے زیادہ 53 اعشاریہ 5ڈگری سینٹی گریڈ گرمی پڑی جو باعث تشویش ہے کیوں کہ تقریباً19سالوں کے دوران پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا۔‘
سینئر میٹ آفیسر ندیم فیصل نے بتایا کہ، ’گلوبل وارمنگ کی وجہ سے موسم تبدیل ہو رہا ہے پہلے جن علاقوں میں بارش کم ہوتی تھی اب وہاں بارشوں کی مقدار بڑھ گئی ہے۔ مثال کے طور پر جیکب آباد۔ سنہ 2011 میں یہاں ریکارڈ 300ملی میٹر بارش ہوئی جو انتہائی غیر معمولی ہے۔ایسی ہی کچھ صورتحال بلوچستان کے علاقوں جھل مگسی اور نصیر آباد میں بھی ریکارڈ کی گئی ہے۔‘
’افریقن جرنل آف بائیو ٹیکنالوجی‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق، شہر میں آبادی کے لحاظ سے موٹر گاڑیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کا سیدھا سا مطلب ہوائی آلودگی کا بڑھنا ہے۔ کیونکہ، گاڑیوں میں استعمال ہونے والا ایندھن فضائی آلودگی بڑھانے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔
ہوا جتنا زیادہ آلودہ ہوگی گرمی کی شدت اسی تناسب سے زیادہ ہوجائے گی۔ اسی لئے، ماہرین کہتے ہیں کہ آنے والے سالوں میں اگر کراچی سمیت سندھ اور پاکستان میں گرمی ’قیامت‘ بھی ڈھا سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ابھی سے اس کے تدارک کے طریقے اختیار کئے جائیں۔
شہری منصوبہ بندی کے ماہر، فرحان انو رکا کہنا ہے کہ، ’کراچی کی سڑکیں اور عمارتیں دن بھر سورج کی تپش اپنے اندر جذب کرتی ہیں اور شام ڈھلتے ہی اس گرمی کو خارج کرنا شروع کردیتی ہیں۔ یہ بھی درجہ حرارت بڑھنے کا بنیادی سبب۔‘
توصیف عالم کے بقول، ’پاکستان میں اس بار سردی کا موسم معمول سے 15 دن زیادہ چلا۔ عام طور پر مارچ کا آخری اور اپریل کا ابتدائی عرصہ موسم کی تبدیلی کا ہوتا ہے۔ پاکستان میں سردیوں کی آمد مغرب سے ہوتی ہے۔ لیکن، مذکورہ مدت میں سردیاں ختم ہوجاتی ہیں جبکہ گرمی کی حدت بڑھ جاتی ہے۔ لیکن، اس بار اپریل کے شروع ہوجانے کے باوجود موسم سرد رہا۔ پنجاب میں تو بارشیں اب تک ہو رہی ہیں۔ بارشوں کا ہونا اور سردی کی مدت میں اضافہ ہوجانا دونوں کلائمیٹ چینج کا اشارہ ہیں۔‘
موسم سے متعلق تشویش سے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے ہی گزشتہ دنوں ’پاکستان ریڈ کریسنٹ سوسائٹی سندھ‘ کی جانب سے ایک سیمینار منعقد کیا گیا جس میں متعدد ماہرین ماحولیات نے اپنے اپنے خیالات اور تحقیقی مقالے پیش کئے۔
’این ای ڈی یونیورسٹی آف انجینئر نگ اینڈ ٹیکنالوجی‘ کے پروفیسر ایم احمد نے اپنے مقالے میں کراچی کے علاقے گلشن اقبال کو زلزلے یا سمندری طوفان آنے کی صورت میں ٹیسٹ کیس کے طور پرجائزے کی صورت میں پیش کیا، جس کا مقصد خوف کے بجائے اس اہم ایشو کی جانب نشاندہی تھا۔
مقالے کی رو سے گلشن اقبال میں تعمیر87فیصد عمارتیں، اپنی ساخت اور تعمیری میٹریل کے حوالے سے کسی بھی طوفان یا طاقتور زلزلے سے مقابلے کی ذرہ بھی طاقت نہیں رکھتیں۔ ایسی صورتحال سے صرف عوامی آگاہی اور جدید تقاضوں کو پورا کرنے والی تربیت ہی کسی حد تک نکال سکتی ہے۔ لیکن، افسوسناک پہلو یہ ہے کہ یہاں ایسا بھی کوئی نظام موجود نہیں۔