اسلام آباد —
پاکستان کے مختلف علاقوں میں موسلادھار بارشوں اور سیلاب سے گزشتہ تین دنوں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 58 ہو گئی ہے۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘ کے چیئرمین محمد سعید علیم نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ملک بھر میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 66 ہزار سے زائد ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے مسلح افواج اور سویلین ادارے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق رواں ہفتے مزید بارشیں بھی ہو سکتی ہیں، جس سے صورت حال میں ابتری کا خدشہ ہے۔
سعید علیم نے کہا کہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے کے لیے وفاق اور صوبوں کے پاس وافر وسائل موجود ہیں اور سر دست کسی طرح کی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔
’’ضروری فنڈز موجود ہیں ... تاحال وفاق کو اپنے فنڈز استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ہے کیوں کہ صوبائی حکومتیں اور ذیلی ادارے صورت حال سے نمٹنے کی استعداد رکھتے ہیں۔‘‘
این ڈی ایم اے کے عداد و شمار کے مطابق بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں 245 گاؤں متاثر ہوئے ہیں، اور اب تک 15 امدادی کیمپ قائم کیے جا چکے ہیں جن میں 1,000 سے زائد افراد موجود ہیں۔
بارشوں اور سیلاب سے صوبہ خیبر پختونخواہ، وسطی پنجاب، بلوچستان اور کراچی کے علاوہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی ہلاکتیں ہوئیں۔
صوبہ سندھ میں کراچی کے علاوہ سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد، دادو، شکارپور اور بدین کے اضلاع بھی بارشوں سے متاثر ہوئے۔
خیبر پختونخواہ میں چترال، پشاور اور چارسدہ جب کہ قبائلی علاقوں میں خیبر اور کرم ایجنسی کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں بھی بارشوں اور سیلاب سے تباہی ہوئی۔
بلوچستان میں ضلع جھل مگھسی، سبی اور لورلائی سمیت کئی اضلاع میں کئی دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں راجن پور قابل ذکر ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پیر کو راجن پور کا دورہ کیا اور امدادی کاموں کا جائزہ لیا۔
ملک کے اقتصادی مرکز کراچی میں بارشوں کے باعث گھروں کی چھتیں اور دیواریں گرنے کے علاوہ بجلی کا کرنٹ لگنے سے اموات واقع ہوئیں۔ کراچی میں نکاسی آب کے ناقص نظام کی وجہ سے شہر کے کئی علاقوں میں پانی کھڑا ہو گیا جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
پاکستان کو 2010ء میں شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس سے لگ بھگ 1,800 افراد ہلاک اور دو کروڑ سے زائد متاثر ہوئے تھے۔ حکام کے مطابق اس سیلاب سے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو اربوں ڈالر کا نقصان بھی ہوا۔
2011ء اور 2012ء میں بھی مون سون کے موسم میں پاکستان کو نسبتاً کم شدت کے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان دونوں سالوں کے دوران بھی لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے ’نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی‘ کے چیئرمین محمد سعید علیم نے پیر کو ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ ملک بھر میں بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد 66 ہزار سے زائد ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں صورت حال سے نبرد آزما ہونے کے لیے مسلح افواج اور سویلین ادارے امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق رواں ہفتے مزید بارشیں بھی ہو سکتی ہیں، جس سے صورت حال میں ابتری کا خدشہ ہے۔
سعید علیم نے کہا کہ بارشوں کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر قابو پانے کے لیے وفاق اور صوبوں کے پاس وافر وسائل موجود ہیں اور سر دست کسی طرح کی بیرونی امداد کی ضرورت نہیں۔
’’ضروری فنڈز موجود ہیں ... تاحال وفاق کو اپنے فنڈز استعمال کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ہے کیوں کہ صوبائی حکومتیں اور ذیلی ادارے صورت حال سے نمٹنے کی استعداد رکھتے ہیں۔‘‘
این ڈی ایم اے کے عداد و شمار کے مطابق بارشوں اور سیلاب سے ملک بھر میں 245 گاؤں متاثر ہوئے ہیں، اور اب تک 15 امدادی کیمپ قائم کیے جا چکے ہیں جن میں 1,000 سے زائد افراد موجود ہیں۔
بارشوں اور سیلاب سے صوبہ خیبر پختونخواہ، وسطی پنجاب، بلوچستان اور کراچی کے علاوہ پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی ہلاکتیں ہوئیں۔
صوبہ سندھ میں کراچی کے علاوہ سکھر، لاڑکانہ، جیکب آباد، دادو، شکارپور اور بدین کے اضلاع بھی بارشوں سے متاثر ہوئے۔
خیبر پختونخواہ میں چترال، پشاور اور چارسدہ جب کہ قبائلی علاقوں میں خیبر اور کرم ایجنسی کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں بھی بارشوں اور سیلاب سے تباہی ہوئی۔
بلوچستان میں ضلع جھل مگھسی، سبی اور لورلائی سمیت کئی اضلاع میں کئی دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔
صوبہ پنجاب میں سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں راجن پور قابل ذکر ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پیر کو راجن پور کا دورہ کیا اور امدادی کاموں کا جائزہ لیا۔
ملک کے اقتصادی مرکز کراچی میں بارشوں کے باعث گھروں کی چھتیں اور دیواریں گرنے کے علاوہ بجلی کا کرنٹ لگنے سے اموات واقع ہوئیں۔ کراچی میں نکاسی آب کے ناقص نظام کی وجہ سے شہر کے کئی علاقوں میں پانی کھڑا ہو گیا جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
پاکستان کو 2010ء میں شدید سیلاب کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس سے لگ بھگ 1,800 افراد ہلاک اور دو کروڑ سے زائد متاثر ہوئے تھے۔ حکام کے مطابق اس سیلاب سے ملک کے بنیادی ڈھانچے کو اربوں ڈالر کا نقصان بھی ہوا۔
2011ء اور 2012ء میں بھی مون سون کے موسم میں پاکستان کو نسبتاً کم شدت کے سیلابوں کا سامنا کرنا پڑا تاہم ان دونوں سالوں کے دوران بھی لاکھوں افراد متاثر ہوئے۔