اسلام آباد —
پاکستان کی ایک عدالت نے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی تین مختلف مقدمات میں ضمانتوں میں توسیع کی درخواست منظور کر لی ہے۔
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف اپنی ضمانتوں میں توسیع کے لیے جمعہ کو جب پہلی مرتبہ سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تو اس موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔
ججوں کی نظر بندی سے متعلق مقدمے میں سرکاری وکیل نے سندھ ہائی کورٹ میں سابق صدر کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کی مخالفت کی لیکن چیف جسٹس مشیر عالم نے دلائل سننے کے بعد پرویز مشرف کی ضمانت میں 15 دن کی توسیع کر دی گئی۔
عدالت نے اُنھیں یہ ہدایت بھی کی کہ وہ بغیر اجازت کے ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور قوم پرست بزرگ بلوچ رہنماء نواب اکبر بگٹی کے قتل سے متعلق دو دیگر مقدمات میں پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی اُن کے موکل آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں اس لیے اُن کی حفاظتی ضمانت میں دو ماہ کی توسیع کی جائے لیکن عدالت نے مزید 21 دن کی توسیع دیتے ہوئے سابق صدر کو ہدایت کی کہ وہ راولپنڈی اور ڈیرہ بگٹی میں متعلقہ عدالتوں سے اپنی ضمانت کی توثیق کروائیں۔
سابق صدر کو اپنے دور اقتدار میں پیپلز پارٹی کی مقتول رہنماء بے نظیر بھٹو کو ناکافی سکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ قوم پرست بلوچ رہنماء نواب اکبر بگٹی کے قتل کی سازش اور 2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اعلیٰ عدالت کے ججوں کو نظر بند کرنے الزامات کا سامنا ہے۔
ان تینوں مقدمات میں 22 مارچ کو سندھ ہائی کورٹ نے اُن کی 10 روزہ حفاظتی ضمانت منظور کی تھی اور اس کے دو دن بعد 24 مارچ کو پرویز مشرف چار سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے کراچی پہنچے تھے۔
سندھ ہائی کورٹ میں جمعہ کو پرویز مشرف کے پہنچنے پر وکلاء کے ایک گروپ نے شدید نعرہ بازی کی اور اس دوران ایک وکیل نے اُن کے طرف جوتا بھی پھینکا جو سابق صدر تک نا پہنچ سکا۔ اس موقع پر پرویز مشرف کے حامیوں نے بھی اپنے قائد کے حق میں نعرے لگائے۔
بعض سیاسی رہنماؤں نے پرویز مشرف پر جوتا پھینکنے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اچھی روش نہیں ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا جمعہ کو تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’جب ایک شخص اقتدار میں ہوتا ہے تو اس کی خوش آمدیں کی جاتی ہیں اور جب اقتدار سے اترتا ہے تو جوتے لگتے ہیں، یہ تو اچھی باتیں نہیں ہیں۔‘‘
اگست 2008ء میں عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد پرویز مشرف 2009ء میں بیرون ملک منتقل ہو گئے ۔ 2010ء میں انھوں نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی اور اب 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں شرکت کے لیے وہ وطن واپس آئیں ہیں ۔
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف اپنی ضمانتوں میں توسیع کے لیے جمعہ کو جب پہلی مرتبہ سندھ ہائی کورٹ میں پیش ہوئے تو اس موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔
ججوں کی نظر بندی سے متعلق مقدمے میں سرکاری وکیل نے سندھ ہائی کورٹ میں سابق صدر کی حفاظتی ضمانت میں توسیع کی مخالفت کی لیکن چیف جسٹس مشیر عالم نے دلائل سننے کے بعد پرویز مشرف کی ضمانت میں 15 دن کی توسیع کر دی گئی۔
عدالت نے اُنھیں یہ ہدایت بھی کی کہ وہ بغیر اجازت کے ملک سے باہر نہیں جا سکتے۔
سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو اور قوم پرست بزرگ بلوچ رہنماء نواب اکبر بگٹی کے قتل سے متعلق دو دیگر مقدمات میں پرویز مشرف کے وکیل نے عدالت سے استدعا کی اُن کے موکل آئندہ عام انتخابات میں حصہ لینے جا رہے ہیں اس لیے اُن کی حفاظتی ضمانت میں دو ماہ کی توسیع کی جائے لیکن عدالت نے مزید 21 دن کی توسیع دیتے ہوئے سابق صدر کو ہدایت کی کہ وہ راولپنڈی اور ڈیرہ بگٹی میں متعلقہ عدالتوں سے اپنی ضمانت کی توثیق کروائیں۔
سابق صدر کو اپنے دور اقتدار میں پیپلز پارٹی کی مقتول رہنماء بے نظیر بھٹو کو ناکافی سکیورٹی فراہم کرنے کے علاوہ قوم پرست بلوچ رہنماء نواب اکبر بگٹی کے قتل کی سازش اور 2007 میں ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد اعلیٰ عدالت کے ججوں کو نظر بند کرنے الزامات کا سامنا ہے۔
ان تینوں مقدمات میں 22 مارچ کو سندھ ہائی کورٹ نے اُن کی 10 روزہ حفاظتی ضمانت منظور کی تھی اور اس کے دو دن بعد 24 مارچ کو پرویز مشرف چار سالہ خود ساختہ جلا وطنی ختم کر کے کراچی پہنچے تھے۔
سندھ ہائی کورٹ میں جمعہ کو پرویز مشرف کے پہنچنے پر وکلاء کے ایک گروپ نے شدید نعرہ بازی کی اور اس دوران ایک وکیل نے اُن کے طرف جوتا بھی پھینکا جو سابق صدر تک نا پہنچ سکا۔ اس موقع پر پرویز مشرف کے حامیوں نے بھی اپنے قائد کے حق میں نعرے لگائے۔
بعض سیاسی رہنماؤں نے پرویز مشرف پر جوتا پھینکنے پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ اچھی روش نہیں ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا جمعہ کو تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہنا تھا کہ ’’جب ایک شخص اقتدار میں ہوتا ہے تو اس کی خوش آمدیں کی جاتی ہیں اور جب اقتدار سے اترتا ہے تو جوتے لگتے ہیں، یہ تو اچھی باتیں نہیں ہیں۔‘‘
اگست 2008ء میں عہدہ صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد پرویز مشرف 2009ء میں بیرون ملک منتقل ہو گئے ۔ 2010ء میں انھوں نے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت بنائی اور اب 11 مئی کو ہونے والے عام انتخابات میں شرکت کے لیے وہ وطن واپس آئیں ہیں ۔