کراچی —
کراچی کے اُفق پر آج کا منظرنامہ بھی خون کے دھبے لئے ہوئے ہے۔ کسی جونک کی طرح شہر کو چمٹی ہوئی ٹارگٹ کلنک کی وباء نے پیر کو بھی کئی افراد کو نگل لیا جبکہ بلدیہ ٹاؤن کے آستانے پر گزشتہ روز ہونے والی فائرنگ اور بم حملے کا ایک اور زخمی آج دم توڑ گیا جس کے بعد اس واقعے میں مرنے والوں کی مجموعی تعداد 9 ہو گئی ہے۔
واقعے کے بعد سیکورٹی ادارے اس پہلو پر غور کررہے ہیں کہ کہیں آستانوں اور درگاہوں پر جانے والے لوگوں کو مارنے کا ایک نیا ٹرینڈ تو شروع نہیں ہوگیا کیوں کہ اس سے قبل بھی حالیہ دنوں میں گلشن معمار میں واقع ایک مزار پر پانچ افراد کو نشانہ بنایا جاچکا ہے جبکہ دسمبر کے آخری دنوں میں نوری جام تماچی کے مزار پر بھی پانچ افراد کو پُر اسرار طور پر ہلاک کردیا گیا تھا۔
نیا نویلا دولہا شادی سے گھر واپسی کے دوران زیر حراست
کراچی میں ہفتے کی رات اپنی نوعیت کا ایک اور منفرد واقعہ پیش آیا۔ کورنگی کے علاقے سے واپس آنے والے دولہے کو پولیس نے گھر پہنچنے سے پہلے ہی حراست میں لے لیا اور نامعلوم جگہ منتقل کرکے اس سے تفتیش شروع کردی جبکہ گھروالے نئی نویلی دلہن کے ساتھ کراچی پریس کلب پہنچ گئے جہاں انہوں نے کئی گھٹنے تک دولہا کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا لیکن ان کی نہیں سنی گئی۔
اگلی صبح پولیس نے زیر ِحراست دولہا فہد عزیز کو رہا کر دیا لیکن عینی شاہدین کے مطابق تشدد کے باعث وہ کھڑے ہونے کے بھی قابل نہیں تھا۔ اہل خانہ نے فہد کو اسپتال منتقل کیا اور وہ تاحال آئی سی یو میں داخل ہے۔
واقعہ کے خلاف پٹیشن دائر
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما واسع جلیل نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے فہد عزیز کو پارٹی کارکن بتایا۔ واقعے کے خلاف ایم کیو ایم نے پیر کو شدید احتجاج بھی کیا۔حتیٰ کہ پولیس کے مبینہ تشدد کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں متحدہ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے پٹیشن دائر کر دی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ایف آئی آر میں کراچی پولیس چیف سمیت دیگر افسران اور واقعے میں ملوث اہلکاروں کو نامزد کیا جائے۔
اسمبلی اجلاس سے واک آوٴٹ
متحدہ قومی موومنٹ کے سندھ اسمبلی ارکان نے اس واقعے کے خلاف پیر کو ہی اسمبلی اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے میڈیا سے خطاب میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کا بھی اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے فہد عزیز پر جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ملوث ہونے کے جھوٹے الزامات لگائے ہیں۔
واقعے کے بعد سیکورٹی ادارے اس پہلو پر غور کررہے ہیں کہ کہیں آستانوں اور درگاہوں پر جانے والے لوگوں کو مارنے کا ایک نیا ٹرینڈ تو شروع نہیں ہوگیا کیوں کہ اس سے قبل بھی حالیہ دنوں میں گلشن معمار میں واقع ایک مزار پر پانچ افراد کو نشانہ بنایا جاچکا ہے جبکہ دسمبر کے آخری دنوں میں نوری جام تماچی کے مزار پر بھی پانچ افراد کو پُر اسرار طور پر ہلاک کردیا گیا تھا۔
نیا نویلا دولہا شادی سے گھر واپسی کے دوران زیر حراست
کراچی میں ہفتے کی رات اپنی نوعیت کا ایک اور منفرد واقعہ پیش آیا۔ کورنگی کے علاقے سے واپس آنے والے دولہے کو پولیس نے گھر پہنچنے سے پہلے ہی حراست میں لے لیا اور نامعلوم جگہ منتقل کرکے اس سے تفتیش شروع کردی جبکہ گھروالے نئی نویلی دلہن کے ساتھ کراچی پریس کلب پہنچ گئے جہاں انہوں نے کئی گھٹنے تک دولہا کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کیا لیکن ان کی نہیں سنی گئی۔
اگلی صبح پولیس نے زیر ِحراست دولہا فہد عزیز کو رہا کر دیا لیکن عینی شاہدین کے مطابق تشدد کے باعث وہ کھڑے ہونے کے بھی قابل نہیں تھا۔ اہل خانہ نے فہد کو اسپتال منتقل کیا اور وہ تاحال آئی سی یو میں داخل ہے۔
واقعہ کے خلاف پٹیشن دائر
متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما واسع جلیل نے میڈیا کو بیان دیتے ہوئے فہد عزیز کو پارٹی کارکن بتایا۔ واقعے کے خلاف ایم کیو ایم نے پیر کو شدید احتجاج بھی کیا۔حتیٰ کہ پولیس کے مبینہ تشدد کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں متحدہ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے پٹیشن دائر کر دی جس میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ ایف آئی آر میں کراچی پولیس چیف سمیت دیگر افسران اور واقعے میں ملوث اہلکاروں کو نامزد کیا جائے۔
اسمبلی اجلاس سے واک آوٴٹ
متحدہ قومی موومنٹ کے سندھ اسمبلی ارکان نے اس واقعے کے خلاف پیر کو ہی اسمبلی اجلاس سے احتجاجاً واک آؤٹ کیا۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے رہنما فیصل سبزواری نے میڈیا سے خطاب میں آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کا بھی اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے فہد عزیز پر جرائم پیشہ افراد کے ساتھ ملوث ہونے کے جھوٹے الزامات لگائے ہیں۔