رنگ، رنگولی، دیئے، پٹاخے اور مٹھائی کا دوسرا نام ہی ’دیوالی‘ ہے ۔۔لیکن، کراچی میں بدھ کے روز منائی جانے والی دیوالی کچھ ’پھیکی‘ رہی۔ مندروں کی دیکھ بھال کرنے والی انتظامیہ نے پٹاخے چھوڑنے پر سخت پابندی لگا رکھی تھی جس سے نہ آسمان جگمگایا، نہ روشنیوں نے جشن منایا اور نہ ہی عمارتیں روشنیوں میں نہائیں۔
کراچی کا سوامی نارائن مندر جہاں شہر میں دیوالی کا سب سے زیادہ اہتمام ہوتا ہے وہاں بھی فضا خاموشی میں ڈوبی رہی۔مندر کے باہر دن بھر پولیس کی گاڑیاں موجود رہیں جبکہ رینجرز نے بھی گشت جاری رکھا۔
چنیسر گوٹھ سے سوامی نارائن مندر آنے والے ایک عقیدت مند اشوک نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’بغیر پٹاخوں کے دیوالی منانا ایسا ہی ہے جیسے بغیر چینی کی چائے پینا۔ پولیس والے پٹاخوں کی خریداری کے لئے شہر بھر سے آنے والے لوگوں کو پکڑ پکڑ کر لے جا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار مندر کے باہر لگنے والے اسٹالز میں پٹاخوں کا ایک بھی اسٹال نہیں۔ دیوالی پر تو کم از کم ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا یہ تو تہوار ہی پٹاخوں، ہنگاموں اور ہلے گلے کا ہے۔‘
ایک اور عقیدت مند، آنند کا کہنا تھا ’دیوالی ہندو دیوتا رام ان کے بھائی لکشمن اور ’پتنی‘ سیتا کی 14برس تک جنگلوں میں رہنے کے بعد واپسی کی خوشی میں منائی جاتی ہے ۔اس دن کی یاد میں ہندو برادری آپس میں مٹھائی باٹتی، دیئے جلاتی اور پٹاخے چھوڑتی ہے اور پٹاخے ہی دیوالی کا اصل جشن ہیں لیکن بے وجہ کی پابندی نے دیوالی کا مزا ختم کردیا ہے۔‘
بدھ کے روز سوامی نارائن مندر کا احاطہ مختلف مذاہب اور اہم شخصیات کے لئے ’میٹنگ پوائنٹ‘ بھی بنا رہا۔ پاکستان سکھ کونسل کے پیٹرن ان چیف سردار رمیش سنگھ، متحدہ قومی موومنٹ کے اقلیتی ونگ سے تعلق رکھنے والے سابق ایم این اے منوہر لال، راجہ چوہان اور دیگر اہم شخصیات نے آپس میں مٹھائی تقسیم کی، مبادکبادیں دیں اور مذہبی رسومات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔
ایک ہی دن، دو مذاہب کے دو تہوار
سردار رمیش سنگھ نے وی او اے کو بتایا ’آج کے دن ہندو برادری دیوالی اور سکھ برادری ’بندی چھوڑ دیوس‘ مناتی ہے اسے آپ ’یوم رہائی‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ روایات کے مطابق مغل شہنشاہ جہانگیر نے سکھوں کے چھٹے گرو ہرگوبند سنگھ اور 52ہندو راجاوٴں کوکسی بات پر ناراض ہوکر راجستھان کے مشہور شہر گوالیار کے قلعے میں قید کردیا تھا یا یوں کہئے بندی (قیدی) بنالیا تھا اور تمام کوششوں کے باوجود رہائی ممکن نہیں ہوپارہی تھی۔ ایسے میں لاہور کے مشہور صوفی بزرگ میاں میر صاحب نے جہانگیر سے ان افراد کی رہائی کے لئے سفارش کی ۔ شہنشاہ جہانگیر میرصاحب کی بات ٹال نہیں سکتا تھا لہذا اسے تمام افراد کو رہا کرنا پڑا۔
اسی رہائی کی خوشی میں ’بندی چھوڑ دیوس‘ منایا جاتا ہے اور جس طرح دیوالی کی خوش میں ہندوبرادری مٹھائی بانٹتی ، مبارکبادیں دیتی ہے، گھروں کو سجاتی، دیئے جلاتی اور چراغاں کرتی ہے، سکھ برادری بھی میٹھائی تقسیم کرتی اور دیئے جلاتی ہے۔
کراچی کے کئی مندروں کو دیوالی کی خوشی میں سجایا اور سنوارا گیا۔ ان میں سوامی نارائن مندر کے علاوہ لکشمی نارائن مندر اور پنج مکھی مندر شامل ہیں۔ یہاں شام ڈھلتے ہی درگادیوی کے علاوہ دیگر دیوی، دیوتاوٴں کو پوجا بھی کی گئی۔
کراچی کے علاوہ سندھ میں آباد ہندووٴں برادری نے بھی دیوالی کا جشن زور شور سے منایا گیا۔ نئے کپڑے پہنے گئے، گھروں کو رنگ برنگی روشنیوں سے سجایا گیا اور نئے نئے کھانے پکانے کا اہتمام کیا گیا۔
وی او اے کو اپنے ذرائع سے موصولہ اطلاعات کے مطابق خیرپور ناتھن شاہ، سکھر، حیدرآباد، میرپور خاص، تھر، عمرکوٹ، میہڑ اور ضلعی ہیڈ کوارٹرز میں بھی دیوالی جوش و خروش کے ساتھ منائی گئی۔