کراچی کے ایم اے جناح روڈ پر، جمعرات کو صبح سے ہی کے ایم سی آفس کے سامنے ایک رونق لگی تھی۔ لوگوں کی بہت بڑی تعداد نے اس جگہ کا رخ کیا۔ نئے کپڑے، خوشی سے دمکتے چہرے، ہاتھوں میں میٹھائیاں، پٹاخوں کی خریداری اور آتش بازی کا شوق چھپائے نہیں چھپتا تھا۔
جی ہاں ۔۔۔آپ نے بالکل درست پہچانا۔ یہ کراچی کا سوامی نارائن مندر ہے جہاں جمعرات کو شہر قائد کے ساتھ ساتھ اندرون سندھ سے آنے والی ہندو برادری نے اپنے سب سے بڑے تہوار دیوالی کا جشن منایا۔
دیوالی ’روشنوں کا تہوار‘ہے ۔۔۔برائی پر اچھائی کی فتح کا دن ہے۔ اس دن ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے مرد، خواتین، بچے اور بزرگ سب مل کر گھروں کو سجاتے ہیں، رات میں دیئے جلاتے، رنگولی بناتے اور آتش بازی کرتے ہیں۔
سوامی نارائن مندر کے وسیع و عریض احاطے میں کئی دن سے پٹاخوں ، پھلجھڑیوں، مٹی کے دیئوں، رنگوں، مورتیوں، دیوی دیوتاوٴں کی تصویروں اور کلینڈرز سمیت متعدد چیزوں کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت جاری تھی۔ جمعرات کی شام کو تو اس میں مزید اضافہ ہوگیا اور صبح سے رات گئے تک دیوالی کی رونق اور خرید و فروخت عروج پر رہی۔
دیوالی ہندو کلینڈر کے مہینے ’اسوینا‘ کے چودہویں دن منائی جاتی ہے۔ ’دیوالی‘ سنسکرت کے لفظ ’دیپا ولی‘ سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے۔۔ روشنی کا منبع۔
دیوالی کا تاریخی و مذہبی پس منظر
سوامی نارائن مندر کے ایک دیرینہ بھگت (پجاری) رامیشور نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ، ’ہندودیومالائی کتھا ’رامائن‘ میں لکھا ہے کہ’ایودھیا (بھارت میں لکھنو کے قریب واقع ایک علاقے) کے راجہ دشرتھ کے بیٹے رام، ان کی بیوی سیتا اور بھائی لکشمن 14سال تک جنگلوں میں گزر بسر کرنے کے بعد ایودھیا واپس لوٹے تھے، کیوں کہ رام کی سوتیلی ماں اپنے سگے بیٹے کو رام کی غیر موجودگی میں راجہ دشرتھ کا وارث چنے جانے کی خواہشمند تھیں، کیوں کہ رام بڑے بیٹے تھے اور ان کی موجودگی میں چھوٹا بیٹا راجہ کا جانشین نہیں بن سکتا تھا۔ لہذا دشرتھ کی بیوی نے راجہ سے ایک وعدہ لیکر رام، سیتا اور لکشمن کو ’بن واس‘ یعنی جنگلوں میں رہنے کے لئے بھیجوا دیا تھا۔ لہذا، 14 برس بعد جب ان کی ایودھیا واپسی ہوئی تو لوگوں نے اس خوشی میں گھروں کو سجایا، مٹھائی تقسیم کی، آتش بازی کی اور گھی کے چراغ جلائے۔ اسی روایت کو ہر سال دیوالی کے روپ میں دہرایا جاتا ہے۔‘
دیوالی منائے جانے کی کچھ اور بھی روایات بیان کی جاتی ہیں، مثلاً کچھ لوگ رام، سیتا اور لکشمن کے 14 سالوں کے بن واس کے دوران لنکا کے راجہ راون سے ہونے والی مقابلے اور اس کے نتیجے میں رام کی فتح کی یاد میں بھی دیوالی مناتے ہیں۔کچھ کا کہنا ہے کہ چونکہ اس دن لکشمی دیوی کی بھگوان وشنو سے شادی ہوئی تھی۔ لہذا، اس خوشی میں بھی دیوالی منائی جاتی ہے۔
سندھ میں سرکاری طور پر دیوالی منانے کا اعلان
صوبہ سندھ میں اس بار پہلی مرتبہ سرکاری طور پر دیوالی منائے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے باقاعدہ طور پر اس کا اعلان کیا تھا۔ ان کے اس اعلان کے ساتھ ساتھ 16اکتوبر کو ہندو کمیونٹی کے نوہزار سے زائد میونسپل ورکرز کو ایڈوانس تنخواہیں اور پنشن دیئے جانے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن، کراچی میونسپل کارپوریشن اور ڈسٹرکٹ میونسپل کارپوریشنز تنخواہوں اور پنشن کی بروقت ادائیگی میں ناکام رہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، کے ایم سی میں ہندو ملازمین کی تعداد تقریباً 1000اور ڈی ایم سیز کے ملازمیں کی تعداد 8000کے قریب ہے۔یوں تقریباً نوہزار ملازمین آخری دن تک تنخواہوں کا انتظار کرتے رہے، حالانکہ سندھ ہائی کورٹ بھی اس کی سختی سے ہدایات دے چکا تھا۔
اس صورتحال پر ایک سرکاری ملازم راکیش رمن نے وی او اے سے اظہار خیال میں کہا، ’خالی جیب دیوالی منانے میں بھلا کیا مزا۔ سال میں اتنا بڑا ایک ہی تہوار آتا ہے ، وہ بھی جیسے تیسے کرکے یا ادھار قرض کرکے گزرے تو بھلا ایسی نوکری کا کیا فائدہ!!‘
عام تعطیل نہیں ہوئی
ہندو کمیونٹی نے دیوالی پر عام تعطیل نہ کرنے کے حکومتی فیصلے پر بھی مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان ہندو کونسل کے چیف پیٹرن رمیش کمار ونکوانی کا کہنا ہے کہ، ’حکومت سندھ نے سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ہندو ملازمین کے لئے چھٹی کا اعلان کیا تھا۔ عام تعطیل کا نہیں۔ تاہم، یہ مطالبہ درست ہے کہ دیوالی پر عام تعطیل ہونی چاہئے تاکہ نجی اداروں میں کام کرنے والے ہندوٴوں کو اس سے فائدہ پہنچے۔دوسرے یہ کہ عام تعطیل سے ہندوکمیونٹی کا احساس محرومی بھی کم ہوگا۔
رمیشن کمار کے مطابق، دیوالی کے تہوار پر دنیا کے 10ملکوں میں چھٹی دی جاتی ہے، جن میں ملائیشیا، نیپال، سری لنکا، میانمار، ماریشئس، گویانا، ٹرینڈاڈ اینڈ ٹوباگو، سرینام ، سنگاپور، فجی، بھارت اور بنگلہ دیش شامل ہیں، جبکہ پاکستان میں دیوالی پر ہندووٴں کو دی جانے والی چھٹی ناغہ شمار ہوتی ہے۔