اسلام آباد —
پاکستان کے اقتصادی مرکز کراچی میں جمعرات کی صُبح نیم فوجی سکیورٹی فورس ’رینجرز‘ کے ہیڈ کوارٹر پر خودکش بم دھماکے میں کم از کم تین افراد ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے۔
صوبائی حکام نے بتایا کہ کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی جب رینجرز کی چار منزلہ عمارت کے بیرونی دروازے سے ٹکرائی تو اس وقت وہاں بڑی تعداد میں اہلکار موجود تھے۔
رینجرز حکام کے مطابق تین اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جب کہ 20 سے زائد زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ خودکش بمبار بارود سے بھری گاڑی رینجرز ہیڈکوارٹر کے احاطے میں لے جانا چاہتا تھا لیکن عمارت کے بیرونی دروازے کو توڑنے کے بعد جیسے ہی اس نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو گاڑی ایک درخت سے ٹکرا گئی جس کے بعد زور دار دھماکا ہوا۔
سندھ پولیس کے سربراہ فیاض لغاری نے بتایا کہ دھماکے میں 100 کلو گرام سے زائد بارودی مواد استعمال کیا اور بظاہر اس کا ہدف رینجرز اہلکاروں کی رہائشی عمارت تھی۔
دھماکے کے بعد آگ بھی بھڑک اٹھی جس سے رینجرز کے صدر دفتر کو شدید نقصان پہنچا۔
دھماکے کے بعد رینجز نے اس حملے میں ملوث مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے اور اطلاعات کے مطابق متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے لیکن اس بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔
سرکاری میڈیا نے رینجرز کے ترجمان کے حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ ایسی بزدلانہ کارروائی سے دہشت گردی کے خلاف ان کے ادارے کی کارروائیاں متاثر نہیں ہوں گی۔
صدر آصف علی زرداری نے اس حملے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک اس لعنت کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
کالعدم تحریک طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے کراچی میں بدامنی سے متعلق مقدمے میں اپنے عبوری حکم میں صوبائی حکومت سے کہا تھا کہ وہ شہر میں طالبان کی موجودگی کا سنجیدگی سے نوٹس اور شدت پسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
صوبائی حکام نے بتایا کہ کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد میں خودکش بمبار نے بارود سے بھری گاڑی جب رینجرز کی چار منزلہ عمارت کے بیرونی دروازے سے ٹکرائی تو اس وقت وہاں بڑی تعداد میں اہلکار موجود تھے۔
رینجرز حکام کے مطابق تین اہلکار موقع پر ہی ہلاک ہو گئے جب کہ 20 سے زائد زخمیوں میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی گئی ہے۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ خودکش بمبار بارود سے بھری گاڑی رینجرز ہیڈکوارٹر کے احاطے میں لے جانا چاہتا تھا لیکن عمارت کے بیرونی دروازے کو توڑنے کے بعد جیسے ہی اس نے آگے بڑھنے کی کوشش کی تو گاڑی ایک درخت سے ٹکرا گئی جس کے بعد زور دار دھماکا ہوا۔
سندھ پولیس کے سربراہ فیاض لغاری نے بتایا کہ دھماکے میں 100 کلو گرام سے زائد بارودی مواد استعمال کیا اور بظاہر اس کا ہدف رینجرز اہلکاروں کی رہائشی عمارت تھی۔
دھماکے کے بعد آگ بھی بھڑک اٹھی جس سے رینجرز کے صدر دفتر کو شدید نقصان پہنچا۔
دھماکے کے بعد رینجز نے اس حملے میں ملوث مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے اور اطلاعات کے مطابق متعدد افراد کو حراست میں بھی لیا گیا ہے لیکن اس بارے میں سرکاری طور پر کچھ نہیں بتایا گیا ہے۔
سرکاری میڈیا نے رینجرز کے ترجمان کے حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ ایسی بزدلانہ کارروائی سے دہشت گردی کے خلاف ان کے ادارے کی کارروائیاں متاثر نہیں ہوں گی۔
صدر آصف علی زرداری نے اس حملے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک اس لعنت کے خلاف جنگ جاری رہے گی۔
کالعدم تحریک طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
گزشتہ ہفتے پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے کراچی میں بدامنی سے متعلق مقدمے میں اپنے عبوری حکم میں صوبائی حکومت سے کہا تھا کہ وہ شہر میں طالبان کی موجودگی کا سنجیدگی سے نوٹس اور شدت پسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔