کراچی —
سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ کراچی میں بدامنی کا اصل سبب زمینوں پر قبضہ اور تجاوزات ہیں اور شہر میں زمینوں کے نئے مالکان پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے یہ آبرویشن شہر میں امن و امان سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی جمعرات کو مسلسل تیسرے روز کراچی رجسٹری میں ہونے والی سماعت کے دوران دی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں قائم بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس خلجی عارف حسین،جسٹس سرمد جلال عثمانی،جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد شامل تھے۔
عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کے 2005ء میں دیے گئے حکم کے باوجود کراچی میں زمینوں کا سروے نہ کرانے پر صوبے کے چیف سیکریٹری،سینئرممبربورڈآف ریونیو اور ڈائریکٹر لینڈ اینڈ سیٹلمنٹ کو توہین عدالت کے الزام میں اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔
عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے کراچی میں مقیم تارکین وطن سے متعلق پالیسی بھی طلب کرلی ہے۔
جمعرات کو سماعت کے دوران میں عدالت کے حکم پرریونیوبورڈ اور کے ایم سی کی جانب سے کراچی کی اختیاراتی تقسیم سے متعلق نقشہ پیش کیا گیا۔عدالت کو بتایا گیا کہ کمپیوٹرائزیشن کے ذریعے اراضی کے مالکان کو رجسٹرڈ کیا جارہا ہے۔
اس پر جسٹس گلزار احمد نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ اس طرح تو نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا،نئے مالکان پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،کراچی میں زمینوں کی جعلی انٹریز ہیں،ایک ایک انچ پر قبضے کا مقدمہ چل رہا ہے،کھاتوں میں ایک بھی اصل مالک کااندراج نہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں کوئی سکون کی جگہ باقی نہیں، شہر کی ایک ایک انچ زمین بیچ دی گئی ہے، بچوں اور بزرگوں کیلئے پارکس بھی باقی نہیں رہے۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کا مفاد اسی میں ہے کہ زمینوں پر قبضے ہوتے رہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 2005میں سرکاری زمینوں کا سروے کرانے کی ہدایت کی تھی اس فیصلے پر کتنا عمل درآمد ہوا؟ ممبر بورڈ آف ریونیو شہادت شمعون نے عدالت کو بتایا کہ سروے میں 6 ماہ لگ سکتے ہیں جس پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اب تک سروے کیوں نہیں ہوا؟عدالت نے 2005ءسے اب تک کام کرنے والے ریونیوافسران کی فہرست بھی طلب کرلی۔
جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس میں کہا کہ 4 افسروں کو جیل بھیج دیا جائے تو ایک دن میں سروے ہو جائے گا۔ بعد ازاں عدالت نے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر چیف سیکریٹری،سینئرممبربورڈآف ریونیو اور ڈائریکٹر لینڈ اینڈ سیٹلمنٹ کو توہین عدالت کے الزام میں اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کردیے۔
سماعت کے دوران میں سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالفتح ملک نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ کراچی میں 20لاکھ غیرملکی مقیم ہیں اور نادراکے حکام نے بتایا ہے کہ انہیں غیرملکیوں کو رجسٹرڈ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ کراچی کی آبادی زیادتی کا شکار ہے۔ غیرملکیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سرحد پارکرکے آئیں اور لوگوں کو قتل بھی کریں۔
جسٹس انور ظہیرجمالی نے کہا کہ کراچی کے مضافات میں ایک خاص ملک سے آئے ہوئے لاکھوں تارکین وطن بیٹھے ہیں،جنہوں نے پلازہ تعمیر کرلئے اور کاروبار چلارہے ہیں،انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں نشاندہی کردی تھی مگر اب تک کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی گئی۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس میں کہا کہ تاجکستان، ازبکستان اور برما جیسے ممالک سے لوگ آکر یہاں رہ رہے ہیں۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ تارکین وطن کے حوالے سے وفاقی حکومت کی پالیسی پیش کی جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ بشریٰ زیدی واقعہ کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی کی عدالتی انکوائری کی رپورٹ اور 1992کے کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے مقتول پولیس افسران کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی جائے۔
ریجنل الیکشن کمشنر عطاءالرحمان نے عدالت میں کراچی کی آبادی اور ووٹرلسٹ سے متعلق تفصیلات پیش کی ۔عدالت نے مردم شماری اور حد بندیوں سے متعلق الیکشن کمیشن اور حکومت کے مابین ہونے والی جو مشاورت کی تفصیلات بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کردی۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے یہ آبرویشن شہر میں امن و امان سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی جمعرات کو مسلسل تیسرے روز کراچی رجسٹری میں ہونے والی سماعت کے دوران دی۔
سپریم کورٹ کے جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں قائم بینچ کے دیگر ارکان میں جسٹس خلجی عارف حسین،جسٹس سرمد جلال عثمانی،جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد شامل تھے۔
عدالت نے سندھ ہائی کورٹ کے 2005ء میں دیے گئے حکم کے باوجود کراچی میں زمینوں کا سروے نہ کرانے پر صوبے کے چیف سیکریٹری،سینئرممبربورڈآف ریونیو اور ڈائریکٹر لینڈ اینڈ سیٹلمنٹ کو توہین عدالت کے الزام میں اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔
عدالت نے وفاقی و صوبائی حکومتوں سے کراچی میں مقیم تارکین وطن سے متعلق پالیسی بھی طلب کرلی ہے۔
جمعرات کو سماعت کے دوران میں عدالت کے حکم پرریونیوبورڈ اور کے ایم سی کی جانب سے کراچی کی اختیاراتی تقسیم سے متعلق نقشہ پیش کیا گیا۔عدالت کو بتایا گیا کہ کمپیوٹرائزیشن کے ذریعے اراضی کے مالکان کو رجسٹرڈ کیا جارہا ہے۔
اس پر جسٹس گلزار احمد نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ اس طرح تو نیا پنڈورا بکس کھل جائے گا،نئے مالکان پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،کراچی میں زمینوں کی جعلی انٹریز ہیں،ایک ایک انچ پر قبضے کا مقدمہ چل رہا ہے،کھاتوں میں ایک بھی اصل مالک کااندراج نہیں۔
جسٹس گلزار احمد نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ شہر میں کوئی سکون کی جگہ باقی نہیں، شہر کی ایک ایک انچ زمین بیچ دی گئی ہے، بچوں اور بزرگوں کیلئے پارکس بھی باقی نہیں رہے۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ حکومت کا مفاد اسی میں ہے کہ زمینوں پر قبضے ہوتے رہیں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 2005میں سرکاری زمینوں کا سروے کرانے کی ہدایت کی تھی اس فیصلے پر کتنا عمل درآمد ہوا؟ ممبر بورڈ آف ریونیو شہادت شمعون نے عدالت کو بتایا کہ سروے میں 6 ماہ لگ سکتے ہیں جس پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اب تک سروے کیوں نہیں ہوا؟عدالت نے 2005ءسے اب تک کام کرنے والے ریونیوافسران کی فہرست بھی طلب کرلی۔
جسٹس امیرہانی مسلم نے ریمارکس میں کہا کہ 4 افسروں کو جیل بھیج دیا جائے تو ایک دن میں سروے ہو جائے گا۔ بعد ازاں عدالت نے عدالتی حکم پر عمل درآمد نہ کرنے پر چیف سیکریٹری،سینئرممبربورڈآف ریونیو اور ڈائریکٹر لینڈ اینڈ سیٹلمنٹ کو توہین عدالت کے الزام میں اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کردیے۔
سماعت کے دوران میں سندھ کے ایڈوکیٹ جنرل عبدالفتح ملک نے عدالت کے استفسار پر بتایا کہ کراچی میں 20لاکھ غیرملکی مقیم ہیں اور نادراکے حکام نے بتایا ہے کہ انہیں غیرملکیوں کو رجسٹرڈ کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ کراچی کی آبادی زیادتی کا شکار ہے۔ غیرملکیوں کو اس بات کی اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ سرحد پارکرکے آئیں اور لوگوں کو قتل بھی کریں۔
جسٹس انور ظہیرجمالی نے کہا کہ کراچی کے مضافات میں ایک خاص ملک سے آئے ہوئے لاکھوں تارکین وطن بیٹھے ہیں،جنہوں نے پلازہ تعمیر کرلئے اور کاروبار چلارہے ہیں،انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔عدالت نے اپنے فیصلے میں نشاندہی کردی تھی مگر اب تک کوئی واضح پالیسی نہیں بنائی گئی۔
جسٹس خلجی عارف حسین نے ریمارکس میں کہا کہ تاجکستان، ازبکستان اور برما جیسے ممالک سے لوگ آکر یہاں رہ رہے ہیں۔ عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایت کی کہ تارکین وطن کے حوالے سے وفاقی حکومت کی پالیسی پیش کی جائے۔
عدالت نے حکم دیا کہ بشریٰ زیدی واقعہ کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی کی عدالتی انکوائری کی رپورٹ اور 1992کے کراچی آپریشن میں حصہ لینے والے مقتول پولیس افسران کے لواحقین کو معاوضے کی ادائیگی سے متعلق تفصیلی رپورٹ بھی پیش کی جائے۔
ریجنل الیکشن کمشنر عطاءالرحمان نے عدالت میں کراچی کی آبادی اور ووٹرلسٹ سے متعلق تفصیلات پیش کی ۔عدالت نے مردم شماری اور حد بندیوں سے متعلق الیکشن کمیشن اور حکومت کے مابین ہونے والی جو مشاورت کی تفصیلات بھی پیش کرنے کی ہدایت کی۔
بعد ازاں عدالت نے سماعت 31 اکتوبر تک ملتوی کردی۔