کراچی —
پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے کہا ہے کہ ملک کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی میں قبضے کی جنگ ہے اور شہر میں مافیائیں سرگرم ہیں جنہیں سب جانتے ہیں۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے بدھ کو مسلسل دوسرے روز بھی کراچی رجسٹری میں شہر میں امن و امان سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت جاری رکھی۔
جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں قائم بینچ میں جسٹس خلجی عارف حسین،جسٹس سرمد جلال عثمانی،جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد شامل تھے۔
بدھ کو عدالت کے سامنے ایڈوکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک، چیف سیکریٹری سندھ،ایڈیشنل چیف سیکریٹری (داخلہ)وسیم احمد، ڈی جی رینجرز میجرجنرل رضوان اختر، آئی جی سندھ فیاض لغاری، ایڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود، سینئر ممبربورڈ آف ریونیو،'نادرا' اور الیکشن کمیشن کے نمائندے بھی پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت بینچ کے ارکان نے ریمارکس دیے کہ ہرجگہ نا اہل لوگ تعینات ہیں، جب پولیس والوں کو اپنی نوکری جانے کا خدشہ ہوگا تو وہ مجرموں کے خلاف کارروائی کیسے کریں گے؟ قانون میں وزیروں اور اراکینِ پارلیمان کو اسلحہ لائسنس کا کوٹہ دینے کی کوئی گنجائش نہیں اور ایسا کرنا کرپشن ہے۔
عدالت نے کراچی میں ہلاکتوں سے متعلق ایڈیشنل چیف سیکریٹری وسیم احمد کے بیان پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انسانی جان کو ٹی20 میچ نہ بنائیں۔کم لوگ مریں تو اس کی کوئی اہمیت نہیں؟ بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ انسانی جان کی کوئی قدر نہیں رہی۔مرنے والوں کی تعداد کم ہو تو لوگ شکرادا کرتے ہیں۔
عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے بتایا کہ رواں برس کراچی میں اب تک 1897افرد مختلف واقعات میں جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ گزشتہ برس 1924افراد ہلاک ہوئے تھے۔
عدالت نے حکام کو پولیس اہلکاروں اور افسران کی سیاسی وابستگیوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور حکم دیا کہ اسلحہ لائسنس کی تجدید اور اجراکے نظام کو جلد از جلد کمپیوٹرائزڈ کیا جائے۔
عدالت کو ڈی جی رینجرز نے صنعتوں اور صنعت کاروں کے تحفظ اور شہر میں امن و امان کے قیام کے لیے رینجرز کی کارکردگی سے آگاہ کیا۔
رینجرز کی کارکردگی رپورٹ پر جسٹس انور ظہیرجمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کراچی میں صنعت کاروں اور تاجروں کو آئے دن بھتہ خوری کے خلاف ہڑتال کرنا پڑتی ہے۔ شاید ہی کوئی چھوٹا تاجر ہو جو بھتہ نہ دیتا ہو، شہر میں مختلف گروہ سرگرم ہیں اور بھتہ وصولی کا طریقہ کار بھی بدل گیا ہے۔بھتہ خوروں نے علاقے بانٹ لیے ہیں۔ شہر میں لسانی تقسیم اور سیاسی مخاصمتوں کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ہر جگہ رسائی شہریوں کا حق ہے اور سیکیورٹی کے نام پر علاقوں کو نو گو ایریا نہیں بنایا جاسکتا۔بینچ نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ گلیوں میں بیریئر لگانے کے حوالے سے حکومتی پالیسی جاری کی جائے۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں 10لاکھ اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے ہیں جن میں سے کراچی کے دو لاکھ لائسنس بھی شامل ہیں۔ اس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ اب بھی صرف کاغذی کارروائی پر ہی اکتفاکیا جارہا ہے، 13ماہ میں اتنے لوگ قتل کردئیے گئے اس کا حساب کون دے گا؟ آٹھ، دس قتل میں ملوث ملزمان کو بھی اسلحہ لائسنس جاری کردیا جاتا ہے۔ لائسنس کے اجراکی پالیسی پیش کی جائے تاکہ دیکھا جاسکے کہ کون سا افسر یا وزیر قانون کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ ارکان اسمبلی کو اسلحہ لائسنس کا کوٹہ کس قانون کے تحت دیا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو کرپشن ہے،صرف ووٹ بینک مضبوط کرنے کیلئے دو، دوسو اسلحہ لائسنس تقسیم کردیے جاتے ہیں۔
عدالت نے ہدایت کی کہ لائسنس کی تجدید اور تصدیق کے لیے مخصوص مدت مقرر کی جائے اور جو تصدیق نہ کرائے ان کے لائسنس منسوخ کردیے جائیں۔
یاد رہے کہ کراچی میں گزشتہ برس بدترین ٹارگٹ کلنگ کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے شہر میں امن و امان کی صورتِ حال کا از خود نوٹس لے کر کیس کی سماعت کی تھی ۔
کئی ہفتوں کی سماعت کے بعد اعلیٰ ترین عدالت نے مقدمے کا فیصلہ اکتوبر2011ء میں سنایا تھا جس میں سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شہر میں امن و امان کی بحالی کے لیے مختلف اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کو ایک سال گزرنے کے بعد گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ عدالت کے جج جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس نے منگل کو کراچی رجسٹری میں مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔ مقدمے کی سماعت جمعرات کو بھی جاری رہے گی۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے بدھ کو مسلسل دوسرے روز بھی کراچی رجسٹری میں شہر میں امن و امان سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت جاری رکھی۔
جسٹس انور ظہیرجمالی کی سربراہی میں قائم بینچ میں جسٹس خلجی عارف حسین،جسٹس سرمد جلال عثمانی،جسٹس امیر ہانی مسلم اور جسٹس گلزار احمد شامل تھے۔
بدھ کو عدالت کے سامنے ایڈوکیٹ جنرل سندھ عبدالفتح ملک، چیف سیکریٹری سندھ،ایڈیشنل چیف سیکریٹری (داخلہ)وسیم احمد، ڈی جی رینجرز میجرجنرل رضوان اختر، آئی جی سندھ فیاض لغاری، ایڈیشنل آئی جی کراچی اقبال محمود، سینئر ممبربورڈ آف ریونیو،'نادرا' اور الیکشن کمیشن کے نمائندے بھی پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت بینچ کے ارکان نے ریمارکس دیے کہ ہرجگہ نا اہل لوگ تعینات ہیں، جب پولیس والوں کو اپنی نوکری جانے کا خدشہ ہوگا تو وہ مجرموں کے خلاف کارروائی کیسے کریں گے؟ قانون میں وزیروں اور اراکینِ پارلیمان کو اسلحہ لائسنس کا کوٹہ دینے کی کوئی گنجائش نہیں اور ایسا کرنا کرپشن ہے۔
عدالت نے کراچی میں ہلاکتوں سے متعلق ایڈیشنل چیف سیکریٹری وسیم احمد کے بیان پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ریمارکس میں کہا کہ انسانی جان کو ٹی20 میچ نہ بنائیں۔کم لوگ مریں تو اس کی کوئی اہمیت نہیں؟ بے حسی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ انسانی جان کی کوئی قدر نہیں رہی۔مرنے والوں کی تعداد کم ہو تو لوگ شکرادا کرتے ہیں۔
شاید ہی کوئی چھوٹا تاجر ہو جو بھتہ نہ دیتا ہو، شہر میں مختلف گروہ سرگرم ہیں اور بھتہ وصولی کا طریقہ کار بھی بدل گیا ہے۔بھتہ خوروں نے علاقے بانٹ لیے ہیںسپریم کورٹ
عدالت کے استفسار پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے بتایا کہ رواں برس کراچی میں اب تک 1897افرد مختلف واقعات میں جاں بحق ہوئے ہیں جبکہ گزشتہ برس 1924افراد ہلاک ہوئے تھے۔
عدالت نے حکام کو پولیس اہلکاروں اور افسران کی سیاسی وابستگیوں سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی اور حکم دیا کہ اسلحہ لائسنس کی تجدید اور اجراکے نظام کو جلد از جلد کمپیوٹرائزڈ کیا جائے۔
عدالت کو ڈی جی رینجرز نے صنعتوں اور صنعت کاروں کے تحفظ اور شہر میں امن و امان کے قیام کے لیے رینجرز کی کارکردگی سے آگاہ کیا۔
رینجرز کی کارکردگی رپورٹ پر جسٹس انور ظہیرجمالی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ کراچی میں صنعت کاروں اور تاجروں کو آئے دن بھتہ خوری کے خلاف ہڑتال کرنا پڑتی ہے۔ شاید ہی کوئی چھوٹا تاجر ہو جو بھتہ نہ دیتا ہو، شہر میں مختلف گروہ سرگرم ہیں اور بھتہ وصولی کا طریقہ کار بھی بدل گیا ہے۔بھتہ خوروں نے علاقے بانٹ لیے ہیں۔ شہر میں لسانی تقسیم اور سیاسی مخاصمتوں کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ہر جگہ رسائی شہریوں کا حق ہے اور سیکیورٹی کے نام پر علاقوں کو نو گو ایریا نہیں بنایا جاسکتا۔بینچ نے چیف سیکریٹری کو ہدایت کی کہ گلیوں میں بیریئر لگانے کے حوالے سے حکومتی پالیسی جاری کی جائے۔
ایڈیشنل چیف سیکریٹری وسیم احمد نے عدالت کو بتایا کہ سندھ میں 10لاکھ اسلحہ لائسنس جاری کئے گئے ہیں جن میں سے کراچی کے دو لاکھ لائسنس بھی شامل ہیں۔ اس پر جسٹس خلجی عارف حسین نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ اب بھی صرف کاغذی کارروائی پر ہی اکتفاکیا جارہا ہے، 13ماہ میں اتنے لوگ قتل کردئیے گئے اس کا حساب کون دے گا؟ آٹھ، دس قتل میں ملوث ملزمان کو بھی اسلحہ لائسنس جاری کردیا جاتا ہے۔ لائسنس کے اجراکی پالیسی پیش کی جائے تاکہ دیکھا جاسکے کہ کون سا افسر یا وزیر قانون کی خلاف ورزی کررہا ہے۔
سندھ میں 10لاکھ اسلحہ لائسنس جاری کیے گئے ہیں جن میں سے کراچی کے دو لاکھ لائسنس بھی شامل ہیں۔ایڈیشنل چیف سیکریٹری سندھ
جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے کہ ارکان اسمبلی کو اسلحہ لائسنس کا کوٹہ کس قانون کے تحت دیا جاتا ہے؟ انہوں نے کہا کہ یہ تو کرپشن ہے،صرف ووٹ بینک مضبوط کرنے کیلئے دو، دوسو اسلحہ لائسنس تقسیم کردیے جاتے ہیں۔
عدالت نے ہدایت کی کہ لائسنس کی تجدید اور تصدیق کے لیے مخصوص مدت مقرر کی جائے اور جو تصدیق نہ کرائے ان کے لائسنس منسوخ کردیے جائیں۔
یاد رہے کہ کراچی میں گزشتہ برس بدترین ٹارگٹ کلنگ کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے شہر میں امن و امان کی صورتِ حال کا از خود نوٹس لے کر کیس کی سماعت کی تھی ۔
کئی ہفتوں کی سماعت کے بعد اعلیٰ ترین عدالت نے مقدمے کا فیصلہ اکتوبر2011ء میں سنایا تھا جس میں سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو شہر میں امن و امان کی بحالی کے لیے مختلف اقدامات کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔
ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کو ایک سال گزرنے کے بعد گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے اس پر عمل درآمد کا جائزہ لینے کے لیے اعلیٰ عدالت کے جج جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا جس نے منگل کو کراچی رجسٹری میں مقدمے کی دوبارہ سماعت کا آغاز کیا تھا۔ مقدمے کی سماعت جمعرات کو بھی جاری رہے گی۔