انسانی حقوق کی مقامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارتی کشمیر کی حکومت پر الزام لگایا ہے کہ پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے) کو لوگوں کو آہنی سلاخوں کے پیچھے رکھنے کے لیے اِس لیے استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ معقول قانونی راستے اختیار کرکے اُنھیں مجرم قرار دلانا ناممکن ہے۔
اِس کالے قانون کو لوگوں کو طویل عرصے تک نظربند رکھنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی مقامی برانچ نےیہ رپورٹ سری نگر میں جاری کی جِس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران 8000سے20000تک افراد کو پی ایس اے کے قوانین کے تحت نظربند کیا گیا۔
چھ سو صفحات پر مشتمل رپورٹ میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ پی ایس اے کے تحت نہ صرف ہر سال سینکڑوں لوگوں کو پابندِ سلاسل کیا جاتا ہے، بلکہ حراست کے دوران اُن میں سے کئی ایک پر بڑے پیمانے پر تشدد ڈھایا جاتا ہے۔ گرفتاری سے پہلے ایسے افراد کی غیرسرکاری طور پر چھان بین کی جاتی ہے اور اُنھیں وکلا تک رسائی یا قانونی مدد حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔
صوبائی حکومت نے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے اِن الزامات کی سختی کے ساتھ تردید کی ہے اور کہا ہے کہ گرفتاریوں کے اعدادو شمار انتہائی مبالغہ آرائی پر مشتمل ہیں۔
حکومت کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ حالیہ شورش کے دوران 4046افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، لیکن بعد میں اُن میں سے 3900کو رہا کیا گیا اور صرف 28افراد کو پی ایس اے کے تحت نظربند کیا گیا۔ پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت کسی بھی شخص کو مقدمہ چلائے بغیر دو سال تک نظربند کیا جاسکتا ہے۔
ایمنسٹی کے نمائندے کا اصرار تھا کہ پی ایس اے کے بے دریغ استعمال سے اِس سوچ کو مدد ملتی ہے کہ بھارتی کشمیر میں پولیس اور حفاظتی افواج قانون سے بالا تر ہیں۔
رپورٹ میں پی ایس اے کو لاقانونی ضابطہ قرار دیتے ہوئے، اُسے فوری طور پر کالعدم قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔