رسائی کے لنکس

یورپی قانون سازوں کا دورہ جموں و کشمیر


یورپی قانون سازوں کے دورے سے پہلے پیر کے روز جموں و کشمیر میں ایک گرینیڈ حملے میں کئی افراد زخمی ہو گئے تھے۔ (فائل فوٹو)
یورپی قانون سازوں کے دورے سے پہلے پیر کے روز جموں و کشمیر میں ایک گرینیڈ حملے میں کئی افراد زخمی ہو گئے تھے۔ (فائل فوٹو)

یورپی یونین کے قانون سازوں کا ایک وفد بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر پہنچ گیا ہے۔ جہاں وہ حکام کے علاوہ تاجروں سے بھی ملاقات کرے گا۔

یورپی یونین کا وفد منگل کو جموں و کشمیر پہنچا جو اپنے دورے کے دوران آرمی ہیڈ کوارٹرز بھی جائے گا۔

جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد یہ کسی بھی غیر ملکی وفد کا پہلا دورہ ہے۔ اس دورے سے پہلے پیر کو جموں و کشمیر میں ایک گرینیڈ حملے میں کئی افراد زخمی ہو گئے تھے۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرینیڈ کا حملہ مشرقی ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور کی ایک مارکیٹ میں ہوا۔ جس میں دو خواتین سمیت کم ازکم 17 افراد زخمی ہو گئے تھے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ گزشتہ تین روز میں یہ دوسرا گرینیڈ حملہ ہے۔ پہلے حملے میں سیکیورٹی فورسز کے چھ اہل کار زخمی ہوئے تھے۔

پانچ اگست کو بھارتی آئین کے تحت واحد مسلم اکثریتی ریاست جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے وادی میں کشیدگی اور تناؤ دیکھا جا رہا ہے۔ اگرچہ کئی ہفتوں کے بعد لینڈ لائن فون سروس بحال کر دی گئی ہے۔ لیکن انٹر نیٹ سروس بدستور معطل ہے۔

بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔ جبکہ پاکستان اسے اپنی شہ رگ سمجھتا ہے۔ دوسری جانب کشمیریوں کا ایک گروپ خودمختاری کا حامی ہے۔

پاکستان اور انسانی حقوق کے کئی گروپ بھارت پر یہ نکتہ چینی کر رہے ہیں کہ اس نے کشمیر میں لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے اور کشمیری اسیری جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس کے بیرونی دنیا سے رابطے منقطع ہیں اور کسی کو کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

ان حالات میں یورپی یونین کے قانون سازوں کے ایک وفد کے دورہ کشمیر کو خصوصی اہمیت دی جارہی ہے۔

بھارتی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے کشمیر کو بیرونی دنیا کے لیے کھول دیا ہے۔ جبکہ یورپی یونین کے وفد کے بعد دیگر گروپ بھی کشمیر کا دورہ کریں گے۔

ایک بھارتی عہدے دار کا کہنا ہے کہ منگل کو کشمیر کا دورہ کرنے والے یورپی یونین کے قانون سازوں کے 27 رکنی وفد کا تعلق 11 ملکوں سے ہے۔ اپنے اس دورے میں وفد سرکاری عہدے داروں اور عام شہریوں سے ملاقات کرے گا اور کشمیر کی زمینی صورت حال کے بارے میں آگاہی حاصل کرے گا۔

دوسری جانب کئی افراد یورپی یونین کے وفد کی حیثیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کی بھارتی نامہ نگار نیہا مسیح نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی تین اراکین کو چھوڑ کر باقی سب کا تعلق یورپ کی انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں سے ہے۔

یورپی یونین کے قانون سازوں نے پیر کے روز وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کی۔ بھارتی حکومت کا دعویٰ ہے کہ کشمیر میں حالات آہستہ آہستہ معمول پر آ رہے ہیں اور زندگی کی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں جبکہ وفد کا کہنا ہے کہ کشمیر کے دورے سے انہیں حقیقی صورت حال کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

کشمیری ادیب مرزا وحید نے ٹویٹ کیا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے یورپی پارلیمنٹ کے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل اراکین کو کشمیر کا گائیڈڈ ٹور کروانا قطعا حیرت کی بات نہیں۔ ٹویٹ کے مطابق 'مضحکہ خیز حد تک ظالمانہ بات یہ ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کے یہ اراکین ایسی جماعتوں کے رکن ہیں، جو کسی بھی ملک سے تعلق رکھنے والے گندمی رنگت کے حامل افراد کا یورپ آنا پسند نہیں کرتیں'۔

انڈیا ٹوڈے کی فارن افئیرز ایڈیٹر گیتا موہن نے یورپی یونین کے وفد کی ساخت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ یہ کیسا سرکاری دورہ ہے کہ نئی دہلی میں موجود یورپی یونین کے دفتر کو اس کا علم ہی نہیں ہے۔

دوسری جانب کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے، جو ریاست کے دیگر سیاست دانوں کے ساتھ پانچ اگست سے حراست میں ہیں، اپنی ایک ٹویٹ میں اس پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ امریکی سینیٹرز کو کشمیر کا دورہ کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی۔

اپنی ایک اور ٹویٹ میں محبوبہ مفتی نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ غیر ملکی وفد کو عام لوگوں، مقامی میڈیا، ڈاکٹروں اور سول سوسائٹی کے ارکان سے بات چیت کرنے کا موقع ملے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ کشمیر اور باقی دنیا کے درمیان حائل لوہے کی چادر ہٹا دی جائے۔

XS
SM
MD
LG