بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں استصوابِ رائے کا مطالبہ کرنے والی سیاسی قیادت کے ایک اہم اتحاد 'مشترکہ مزاحمتی قیادت' نے نئی دہلی اور صوبائی حکومت پر مقامی نوجوانوں کو دیوار سے لگانے کا الزام عائد کیا ہے۔
سرینگر میں اتحاد میں شامل چوٹی کے راہنماؤں سید علی شاہ گیلانی ، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک کے درمیان ایک بند کمرے میں ہوئے اجلاس کے بعد، جسے اتحاد نے غیر معمولی قرار دیدیا ، جاری کیے گیے ایک بیان میں کہا گیا ہے ۔" کشمیری نوجوانوں کو پُشت بہ دیوار کرنے کے لیے تمام غیر جمہوری اور غیر اخلاقی ہتھکنڈے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ اس صورتِ حال پر زیادہ دیر تک خاموش نہیں رہا جاسکتا"۔
بیان میں سیاسی قیدیوں کے ساتھ وادئ کشمیر اور باہر کی جیلوں میں کیے جارہے مبینہ ناروا سلوک اور کشمیر کی سویلین آبادی کو زیادتیوں کا شکار بنائے جانے پر گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے اور احتجاج کیا گیا ہے۔
یہ اجلاس سرکردہ کشمیری آزادی پسند لیڈر محمد اشرف صحرائی کے بیٹے جنید اشرف خان کے حزب المجاہدین میں شامل ہونے کے دو دن منعقد کیا گیا۔ حزب المجاہدین شورش زدہ ریاست میں سرگرم سب سے بڑی مقامی عسکری تنظیم ہے۔
26 سالہ جنید جس نے حال ہی میں ایم بی اے کی ڈگری حاصل کی تھی 23 مارچ کو جمعہ کی نماز ادا کرنے کے لیے سرینگر کے باغات علاقے میں واقع اپنی رہائش گاہ سے نکلا تھا لیکن واپس نہیں لوٹا۔ اگرچہ اُس کے بھائی نے اگلے روز یعنی سنیچر کو پولیس میں اس کی رپورٹ درج کرائی تھی، اُسی شام کو سوشل میڈیا پر جنید کی ایک ایسی تصویر نمودار ہوئی تھی جس میں اسے ایک اے کے 47 بندوق کو ہاتھوں میں تھامے دیکھاجاسکتا تھا- تصویر کے ساتھ درج عبارت میں کہا گیا تھا کہ اُس نے حزب المجاہدین میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے پولیس سربراہ شیش پال وید نے اسے ایک افسوسناک واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ صحرائی کو اپنے بیٹے اور اس جیسے نوجوانوں سے جنہوں نے بندوق تھام لی ہے اپیل کرنی چاہیے کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کریں۔ انہوں نےکہا تھا ۔" صحرائی صاحب کمان سنبھالے ہوئے ہیں۔ لہذا انہیں چاہئیے کہ وہ اپنے بیٹے اور اُس جیسے نوجوانوں کو تشدد کا راستہ ترک کرنے پر آمادہ کریں اور بات چیت کے لیے راہ ہموار کریں تاکہ کشمیری نوجوان کو تشدد کی نذر ہونے سے بچایا جاسکے۔"
پولیس عہدیداروں کا کہنا ہے کہ جنید جیسے درجنوں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد اُن کئی سوکشمیری نوجوانوں میں شامل ہیں جو گزشتہ دو برس کے دوران عسکریت پسندوں کی صف میں شامل ہوگئے ہیں ۔ ان کے بقول یہ رجحان برابر جاری ہے جو باعثِ فکر و تشویش ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس عرصے کے دوران اڑھائی سو کے قریب عسکریت پسندوں کا کام تمام کردیا گیا جن میں مقامی اور غیر ملکی دونوں شامل تھے۔
اس دوران علاقے کی صورتِحال کا جائزہ لینے کے لیے بھارت کی وزارتِ داخلہ کی ایک ٹیم پیر کو نئی دہلی سے سرینگر پہنچی۔ ٹیم کی قیادت سیکریٹری داخلہ راجیو گوبا کررہے ہیں۔
سرینگر میں ایک سرکاری ترجمان نے بتایا کہ ٹیم وادئ کشمیر اور سرمائی صدر مقام جموں میں اپنے قیام کے دوران ریاست کی حفاظتی صورتِ حال اور پاکستان کے ساتھ ملنے والی حد بندی لائن اور بین الاقوامی سرحد یا ورکنگ باؤنڈری پر اُس کے بقول در اندازی اور تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات سے پیدا شدہ حالات پر غورو خوض کرنے کے لیے مقامی عہدیداروں کے ساتھ کئی ملاقاتیں کرے گی۔