کینیا کے حکام کا کہنا ہے کہ فوج نے نیروبی کے اُس شاپنگ مال پر مکمل قبضہ حاصل کر لیا ہے جس پر شدت پسندوں نے حملہ کیا تھا، اور یہ کہ تمام یرغمالیوں کو بازیاب کرا لیا گیا ہے۔
فوج نے اب بھی ویسٹ گیٹ شاپنگ سینٹر کے وسیع کمپلیکس کی تلاشی کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔
صومالیہ سے تعلق رکھنے والے الشباب کے شدت پسندوں نے ہفتے کے روز خرید و فروخت کے مصروف اوقات کے دوران اِس شاپنگ سینٹر پر قبضہ کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
مسلح افراد ایک سے دوسرے اسٹور جاکر، خریداری کرنے والوں کو ہلاک کرتے رہے۔ اُنھوں نے بچوں کے ایک گروپ پر بھی فائر کھولا جو کھانہ پکانےکی کلاس میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، اور پارکنگ لاٹ میں موجود افراد پر گولیاں برسائیں۔ کم از کم 62 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ دو مسلح شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔
ریڈ کراس نے ہلاک شدگان کی تعداد 69 بتائی ہے۔
اس سے پہلے کی ایک اطلاع کے مطابق، کینیا کی فوج نے بتایا تھا کہ اُس نے نیروبی کے شاپنگ مال کے اندر موجود شدت پسندوں کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا ہے، جنھوں نے کئی افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
پیر کے روز ویسٹ گیٹ مال کمپلیکس میں مزید دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، اور دھویں کے سیاہ بادل اٹھتے رہے۔
کینیا کے حکام کا کہنا ہے کہ اُن کی فوج نے شاپنگ سینٹر کی تمام منزلوں پر قبضہ جہا لیا ہے، جہاں سے یرغمالیوں کی غیر معینہ تعداد کو چھڑا لیا گیا ہے۔ تاہم، اب بھی کئی مسلح افراد کمپلیس میں چھپے ہوئے ہیں۔
صومالی دہشت گرد گروہ، الشباب نے حملے کی ذمہ دری قبول کی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ تشدد کی یہ کارروائی کینیا کی فوج کی طرف سے صومالیہ میں کی گئی مداخلت کا بدلہ ہے۔ الشباب کا مطالبہ ہے کہ کینیا کی تمام فوج صومالیہ سے واپس چلی جائے، جس مطالبے کو کینیا کی حکومت مسترد کرتی ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اُنھوں نے کینیا کے صدر اوہورو کنیاٹا سے براہ راست گفتگو کی ہے، اور قانون کے نفاذ کے سلسلے میں کینیا کی تمام ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔
مسٹر اوباما نے کینیا کی تعمیر نو کے بارے میں یقین کا اظہار کیا ہے۔ اُنھوں نے کینیا کو افریقہ کی مستحکم ترین جمہوریت قرار دیا ہے۔
کینیا میں عینی شاہدین کے مطابق نیروبی کے اس شاپنگ مال سے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں آرہی ہیں جہاں سکیورٹی فورسز نے اس کمپلیکس کو شدت پسندوں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
فوج کے ایک اور ترجمان نے کہا ہے کہ نیروبی کے شاپنگ مال میں شدت پسندوں کی طرف سے یرغمال بنائے گئے افراد کی اکثریت کو بازیاب کروا کر کمپلیکس کے زیادہ تر حصہ کا کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے۔
اس سے قبل موصول ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، اتوار کو غروب آفتاب کے بعد فوج نے شاپنگ کمپلیکس میں موجود القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے خلاف زیادہ شدت سے کارروائی کا آغاز کیا۔
کینیا کے صدر اوہورو کنیاٹا کا کہنا تھا کہ دو دنوں کے اس محاصرے میں ایک حملہ آور کو ہلاک کردیا گیا۔ حکام نے فوری طور پر یہ نہیں بتایا کہ کتنے یرغمالیوں کو رہا کروایا گیا اور عمارت میں پھنسے لوگوں کی اب تعداد کتنی ہے۔
کینیا کی ریڈ کراس کے مطابق مزید نو لاشوں کو نکالے جانے کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 68 ہو گئی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 175 بتائی گئی ہے۔
صومالیہ کے دہشت گرد تنظیم الشباب نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے کینیا کی فوج کی صومالیہ میں مداخلت کا ردعمل قرار دیا تھا۔ کینیائی فوج دو سال قبل اس گروہ کے خلاف کارروائی کے لیے صومالیہ میں داخل ہوئی تھی۔
صدر کنیاٹا نے قوم سے خطاب میں اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ عوام دہشت گردی کے خطرے کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
صدر کا کہنا تھا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ان کے بھتیجے اور اس کی منگیتر بھی شامل ہیں۔" میں اس حملے سے متاثر ہونے والوں کا درد سمجھ سکتا ہوں اور اس نقصان میں قوم کے ساتھ ہوں۔"
امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اپنے کینیائی ہم منصب سے بات کرتے ہوئے اس حملے کی شدید مذمت کی تھی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ نہتے شہریوں کے خلاف یہ حملہ افسوسناک ہے۔
شاپنگ مال پر حملے میں ہلاک ہونے والوں میں تین برطانوی شہریوں کے علاوہ فرانس، کینیڈا، چین، بھارت اور جنوبی کوریا کے شہری بھی شامل ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں کوئی امریکی ہلاک نہیں ہوا لیکن زخمیوں میں اس کے شہری شامل ہیں۔
صدر براک اوباما نے کینیا کے صدر کو فون کرکے اس واقعے پر ان سے افسوس کا اظہار کیا اور دہشت گردی کے خلاف انھیں اپنی حمایت کا یقین دلایا۔
فوج نے اب بھی ویسٹ گیٹ شاپنگ سینٹر کے وسیع کمپلیکس کی تلاشی کا کام جاری رکھا ہوا ہے۔
صومالیہ سے تعلق رکھنے والے الشباب کے شدت پسندوں نے ہفتے کے روز خرید و فروخت کے مصروف اوقات کے دوران اِس شاپنگ سینٹر پر قبضہ کرنے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی۔
مسلح افراد ایک سے دوسرے اسٹور جاکر، خریداری کرنے والوں کو ہلاک کرتے رہے۔ اُنھوں نے بچوں کے ایک گروپ پر بھی فائر کھولا جو کھانہ پکانےکی کلاس میں تعلیم حاصل کر رہا تھا، اور پارکنگ لاٹ میں موجود افراد پر گولیاں برسائیں۔ کم از کم 62 افراد ہلاک ہوئے، جب کہ دو مسلح شدت پسندوں کو ہلاک کیا گیا۔
ریڈ کراس نے ہلاک شدگان کی تعداد 69 بتائی ہے۔
اس سے پہلے کی ایک اطلاع کے مطابق، کینیا کی فوج نے بتایا تھا کہ اُس نے نیروبی کے شاپنگ مال کے اندر موجود شدت پسندوں کے خلاف گھیرا تنگ کر دیا ہے، جنھوں نے کئی افراد کو یرغمال بنا رکھا ہے۔
پیر کے روز ویسٹ گیٹ مال کمپلیکس میں مزید دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، اور دھویں کے سیاہ بادل اٹھتے رہے۔
کینیا کے حکام کا کہنا ہے کہ اُن کی فوج نے شاپنگ سینٹر کی تمام منزلوں پر قبضہ جہا لیا ہے، جہاں سے یرغمالیوں کی غیر معینہ تعداد کو چھڑا لیا گیا ہے۔ تاہم، اب بھی کئی مسلح افراد کمپلیس میں چھپے ہوئے ہیں۔
صومالی دہشت گرد گروہ، الشباب نے حملے کی ذمہ دری قبول کی ہے۔ اُس کا کہنا ہے کہ تشدد کی یہ کارروائی کینیا کی فوج کی طرف سے صومالیہ میں کی گئی مداخلت کا بدلہ ہے۔ الشباب کا مطالبہ ہے کہ کینیا کی تمام فوج صومالیہ سے واپس چلی جائے، جس مطالبے کو کینیا کی حکومت مسترد کرتی ہے۔
امریکی صدر براک اوباما نے کہا ہے کہ اُنھوں نے کینیا کے صدر اوہورو کنیاٹا سے براہ راست گفتگو کی ہے، اور قانون کے نفاذ کے سلسلے میں کینیا کی تمام ضروریات کو پورا کیا جائے گا۔
مسٹر اوباما نے کینیا کی تعمیر نو کے بارے میں یقین کا اظہار کیا ہے۔ اُنھوں نے کینیا کو افریقہ کی مستحکم ترین جمہوریت قرار دیا ہے۔
کینیا میں عینی شاہدین کے مطابق نیروبی کے اس شاپنگ مال سے دھماکوں اور فائرنگ کی آوازیں آرہی ہیں جہاں سکیورٹی فورسز نے اس کمپلیکس کو شدت پسندوں کے قبضے سے چھڑانے کے لیے کارروائی شروع کر رکھی ہے۔
فوج کے ایک اور ترجمان نے کہا ہے کہ نیروبی کے شاپنگ مال میں شدت پسندوں کی طرف سے یرغمال بنائے گئے افراد کی اکثریت کو بازیاب کروا کر کمپلیکس کے زیادہ تر حصہ کا کنٹرول حاصل کر لیا گیا ہے۔
اس سے قبل موصول ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، اتوار کو غروب آفتاب کے بعد فوج نے شاپنگ کمپلیکس میں موجود القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں کے خلاف زیادہ شدت سے کارروائی کا آغاز کیا۔
کینیا کے صدر اوہورو کنیاٹا کا کہنا تھا کہ دو دنوں کے اس محاصرے میں ایک حملہ آور کو ہلاک کردیا گیا۔ حکام نے فوری طور پر یہ نہیں بتایا کہ کتنے یرغمالیوں کو رہا کروایا گیا اور عمارت میں پھنسے لوگوں کی اب تعداد کتنی ہے۔
کینیا کی ریڈ کراس کے مطابق مزید نو لاشوں کو نکالے جانے کے بعد ہلاکتوں کی تعداد 68 ہو گئی ہے جب کہ زخمیوں کی تعداد 175 بتائی گئی ہے۔
صومالیہ کے دہشت گرد تنظیم الشباب نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے کینیا کی فوج کی صومالیہ میں مداخلت کا ردعمل قرار دیا تھا۔ کینیائی فوج دو سال قبل اس گروہ کے خلاف کارروائی کے لیے صومالیہ میں داخل ہوئی تھی۔
صدر کنیاٹا نے قوم سے خطاب میں اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ عوام دہشت گردی کے خطرے کے سامنے نہیں جھکیں گے۔
صدر کا کہنا تھا کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں ان کے بھتیجے اور اس کی منگیتر بھی شامل ہیں۔" میں اس حملے سے متاثر ہونے والوں کا درد سمجھ سکتا ہوں اور اس نقصان میں قوم کے ساتھ ہوں۔"
امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے اپنے کینیائی ہم منصب سے بات کرتے ہوئے اس حملے کی شدید مذمت کی تھی۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون بھی اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ نہتے شہریوں کے خلاف یہ حملہ افسوسناک ہے۔
شاپنگ مال پر حملے میں ہلاک ہونے والوں میں تین برطانوی شہریوں کے علاوہ فرانس، کینیڈا، چین، بھارت اور جنوبی کوریا کے شہری بھی شامل ہیں۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ اس واقعے میں کوئی امریکی ہلاک نہیں ہوا لیکن زخمیوں میں اس کے شہری شامل ہیں۔
صدر براک اوباما نے کینیا کے صدر کو فون کرکے اس واقعے پر ان سے افسوس کا اظہار کیا اور دہشت گردی کے خلاف انھیں اپنی حمایت کا یقین دلایا۔