ستمبر کے اوائل میں کینیا کے کليسائے انگلستان نے مبینہ طور پر ہم جنس پرستی میں ملوث ہونے کی بنا پر ایک پادری کا لائسنس منسوخ جبکہ دیگر چار کا معطل کردیا تھا۔ اس فیصلے سے یہ پیغام دیا گیا کہ کینیا کے کلیساؤں میں ہم جنس پرستی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
تاہم کینیا میں ایک ایسا چرچ موجود ہے جہاں ہم جنس پرست برادری کے افراد کی اتوار کی عبادت میں شریک ہونے کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔
یہ چرچ نیروبی کے وسط میں واقع ہے جہاں 28 سالہ ایک ہم جنس پرست خاتون لیلیان کا کہنا ہے کہ " کافی دیر سے میں عام چرچ میں نہیں گئی چونکہ میں یہ محسوس کرتی ہوں کہ میری طرح کے لوگوں کو وہاں قبول نہیں کیا جاتا۔ تاہم میں نے وہاں جانا پسند کیا جہاں مجھے قبول کیا جاتا ہے جہاں مجھے اپنی شناخت چھپانے کی ضرورت نہیں ہے۔"
پادری باراسا ماکوہا ہم جنس پرست برادری کے افراد کے لیے مذہبی رسومات ادا کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ انہیں اس پر کئی بار دھمکیاں دی گئی ہیں تاہم وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ "کسی بھی پادری کے لیے یہ غلط ہو گا کہ وہ ایک ایسے پیغام کی تبلیغ کرے جس سے لوگوں کو خارج کرنے سے انہیں روحانی تکلیف ہو ، جس کا تعلق لوگوں کے بارے میں رائے قائم کرنے سے ہو اور اس سے لوگ اپنے آپ سے نفرت کرنا شروع کر دیں، خاص طور پر ہم جنس پرست افراد، کیونکہ چرچ کو اپنا نقطہ نظر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور چرچ کو ہم جنس پرست افراد کو سمجھنے کی بھی ضرورت ہے"۔
تاہم دوسرے پادری اس سے اتفاق نہیں کرتے جن کا کہنا ہے کہ متبادل چرچ اس کا حل نہیں ہے۔
پادری سیلاز موکلوا جن کا تعلق کليسائے انگلستان سے ہے، کا کہنا ہے کہ پادریوں کو ہم جنس پرست افراد کو زندگی کی سیدھی سمت پر چلانا چاہیے۔
"ایک مرد کو اپنے آپ کو جنسی طور پر دوسرے مرد کے ساتھ ملوث نہیں کرنا چاہیے۔ یہ ایک برائی ہے اور اگر کوئی چرچ ایسی چیزوں میں شامل ہوتا ہے تو یہ چرچ ہمیشہ رہنے والے خدا کی عبادت نہیں کر رہا کیونکہ یہ خدا کی تعلیمات کے خلاف ہے۔"
صدر براک اباما نے جولائی میں اپنے دورہ کینیا کے دوران ہم جنس پرست برادری کے افراد کے لیے مساوی حقوق کی بات کی تھی۔ تاہم کینیا کے صدر اہورو کینیاٹا نے کہا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
افریقہ کے کم ازکم 36 ملکوں میں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے جن میں کینیا بھی شامل ہے جس میں قید اور جرمانے کی سزا دی جاسکتی ہے۔
کئی ایک اس کی مخالفت مذہبی اور ثقافتی وجوہات کی بنا پر کرتے ہیں اور وہ اسے ایک جنسی کج روی قرار دیتے ہیں۔
تاہم پادری ماکوہا کی طرف سے ہر ہفتے عبادت کے چھوٹے اجتماع سے کئی لوگوں کے لیے چین کے لمحات میسر آتے ہیں جو تعصب سے آزاد ہیں۔