سابق امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران جوہری سمجھوتے پر عمل درآمد کی توثیق نہ کرنے کے فیصلے پر سخت تنقید کی ہے۔ 2015ء میں طے کیے گئے اس معاہدے پر چھ عالمی طاقتوں نے دستخط کیے تھے۔
کیری نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ ''حقائق کو انا اور نظریے کی بھینٹ چڑھانے کے مترادف ہے''۔
کیری، جنھوں نے معاہدے پر ہونے والے مذاکرات میں حصہ لیا تھا، مزید کہا ہے کہ 'ٹرمپ ہمارے ہاتھ کمزور کر رہے ہیں، ہمیں اپنے اتحادیوں سے دور دھکیل رہے ہیں، ایرانی سخت گیر راہنمائوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں، شمالی کوریا کے معاملے کے حل کو مشکل بنا رہے ہیں اور فوجی تنازع کے قریب لے جا رہے ہیں''۔
ایران کے صدر نے جمعے کے روز کہا ہے کہ 2015ء میں چھ عالمی طاقتوں کے ساتھ دستخط ہونے والے جوہری معاہدے کو منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی ایوانِ نمائندگان میں ڈیموکریٹ پارٹی کی چوٹی کی قائد، نینسی پلوسی نے کہا ہے کہ صدر کا فیصلہ ''ایک سریح غلطی'' ہے، جس سے امریکی سلامتی اور اعتماد کو دھچکا پہنچتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ ٹرمپ نے ''جوہری سائنس دانوں، قومی سلامتی کے ماہرین، جنرلوں اور اپنی کابینہ کی اکثریتی رائے کو نظرانداز کیا ہے، جس میں، اطلاعات کے مطابق، خود اُن کے وزیر دفاع اور وزیر خارجہ شامل ہیں''۔
یورپی یونین کا ردِ عمل
جرمن وزیر خارجہ سگمار گبریل نے کہا ہے کہ ایران سمجھوتے سے ''پہلی بار یہ ثابت ہوا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے لڑائی کو روکنا ممکن ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی ملک کو جوہری ہتھیار تشکیل دینے سے باز رکھا جا سکتا ہے''۔
گبریل نے مزید کہا کہ ''ہمیں ایسی ہی مثالوں کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر، شمالی کوریا جیسے ملکوں کو قائل کرنے کے لیے، شاید دوسروں کے لیے بھی، کہ نیوکلیئر ہتھیار حاصل کیے بغیر سلامتی کا حصول ممکن ہے''۔
یورپی یونین کے امور خارجہ کی سربراہ، فریڈریکا مغیرنی نے کہا ہے کہ ''دنیا کے کسی ملک کے صدر کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ اس قسم کے سمجھوتے کو منسوخ کرے''۔
بقول اُن کے، ''امریکہ کے صدر کے پاس متعدد اختیارات ہیں، (لیکن) یہ اختیار نہیں ہے''۔
اُنھوں نے اس بات کی جانب توجہ دلائی کہ کثیر ملکی سمجھوتے کی متفقہ توثیق سلامتی کونسل کی قرارداد 2231 کے تحت، اقوام متحدہ نے کی تھی۔
یورپی یونی کی بیرونی پالیسی کی سربراہ نے توجہ مبذول کرائی کہ جوہری ترانائی کا بین الاقوامی ادارہ (آئی اے اِی اے) آٹھ بار تصدیق کر چکا ہے کہ عہد کے مطابق، ایران جوہری معاملے پر اپنے تمام وعدے پورے کر رہا ہے، جس کے لیے ''مربوط اور سخت'' معائنہ کاری کا نظام موجود ہے۔
جوہری توانائی کے بین الاقوامی ادارے کے سربراہ، یکیکا امانو نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران پر پہلے ہی جوہری تصدیق کا دنیا کا سخت ترین طریقہ کار لاگو ہے، اور وہ سمجھوتے کی ضروریات پر عمل درآمد کر رہا ہے۔
ایک مشترکہ بیان میں برطانوی وزیر اعظم تھریسا مئی، فرانسیسی صدر امانوئل مکخواں اور جرمن چانسلر آنگلہ مرکل نے کہا ہے کہ اُنھیں ایران جوہری سمجھوتے کی تجدید نہ کرنے کے ٹرمپ کے فیصلے کے ممکنہ نتائج پر تشویش ہے۔
اپنے بیان میں یورپی سربراہان نے کہا ہے کہ ''سمجھوتے (جے سی پی او اے) کو محفوظ رکھنا ہمارے مشترکہ سکیورٹی مفادات میں ہے۔ جوہری معاہدہ 13 برس کی سفارتی کاوشوں کا ثمر ہے اور یہ بات یقینی بنانے کی جانب ایک کلیدی قدم ہے کہ ایران جوہری پروگرام کو فوجی مقاصد کی جانب نہ پلٹ سکے''۔
جمعے کے روز جب امریکی وزیر خارجہ سے یہ سوال کیا گیا آیا یہ ممکن ہوگا کہ یورپی ممالک ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر پھر سے مذاکرات کر سکیں، ریکس ٹلرسن نے کہا کہ اُن کے خیال میں ایران کی جانب سے درپیش تمام خدشات کے بارے میں بات چیت کا ایک حقیقی موقع موجود ہے۔