چکلالہ کی بیرکوں میں پاکستان ٹیلی وژن راولپنڈی کی عمارت میں جنرل منیجر کے کمرے کے سامنے لمبی راہداری میں اسٹاف یونین، کارکنوں اور کچھ افسران کا احتجاج جاری تھا۔
یہ لوگ انتظامیہ کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور "فیصلے کو واپس لو، واپس لو" کا شور تھا۔ کچھ یہی صورتِ حال دوسرے اسٹیشنز پر بھی تھی۔
فیصلہ یہ تھا کہ تین نئے ملازمین کو براہِ راست گروپ سات کے افسران میں شامل کیا گیا تھا جب کہ افسران کا گریڈ گروپ پانچ سے شروع ہوتا تھا۔ یہ قوانین کی صریح خلاف ورزی تھی اور پی ٹی وی کے بہت سے ملازمین اس کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔
شور و غل جاری تھا کہ جی ایم کے کمرے کا دروازہ کھلا اور بھورے رنگ کی کھدر کی شرٹ اور اسی رنگ کی پتلون کے ساتھ پشاوری چپل پہنے ایک رعب دار شخصیت نمودار ہوئی۔
انہوں نے ایک طائرانہ نگاہ مجمع پر ڈالی جس پر اب خاموشی طاری تھی۔ یہ پی ٹی وی کے مینیجنگ ڈائریکٹر اسلم اظہر تھے۔
چند لمحے کی خاموشی کے بعدوہ اپنی بھاری بھرکم گرج دار آواز میں گویا ہوئے: "میں آپ کے جذبات اور احساسات کی قدر کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ یہ عام روش سے ہٹ کر کیا گیا غیر معمولی فیصلہ ہے۔ میں قوانین اور اپنے اختیارات کو بھی جانتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ انہیں ایک اعلیٰ درجہ دیا گیا ہے۔ لیکن احتجاج سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ آپ کن لوگوں کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ کوئی معمولی لوگ نہیں ہیں۔ ہم نے تو ان کا بہت کم مول لگایا ہے۔"
"یہ ملک کے اعلیٰ ترین دماغ ہیں۔ چند بہترین دانشوروں میں سے ہیں۔ میرے بس میں ہو تو میں انہیں ہیرے جواہرات میں تول دوں! اپنا دل بڑا کیجیے اور انہیں خوش دلی سے قبول کیجیے اور فخر کیجیے کہ وہ آپ کے ساتھی بن رہے ہیں۔ میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ میں سے کسی کا حق بھی نہیں مارا جائے گا۔ یہ فیصلہ ہم نے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے اور ہم اس پر قائم ہیں۔"
یہ کہہ کر اسلم صاحب واپس اپنے دفتر میں چلے گئے۔ مجمع پر سکوت طاری تھا۔ سب نے ایک دوسرے کو دیکھا۔ شرمندگی چہروں پر عیاں تھی اور سب خاموشی سے تتر بتر ہو گئے۔ احتجاج ختم ہو گیا۔
ایسا جامع اور جرأت مندانہ خطاب اسلم اظہر ہی کر سکتے تھے جو پی ٹی وی کے بانی، ذوالفقار بھٹوّ کے ایک دیرینہ ساتھی اور کیمبرج یونیورسٹی سے قانون کے ڈگری یافتہ تھے۔ بہت کم لوگ ان کے سامنے بولنے کی ہمت رکھتے تھے۔
وہ تین ہیرے جن کے خلاف یہ احتجاج ہو رہا تھا وہ عبید اللہ بیگ، قریش پور اور افتخار عارف تھے جو پی ٹی وی کے ایک مقبول ترین پروگرام 'کسوٹی' کے تخلیق کار اور میزبان تھے۔
لاکھوں ناظرین کی طرح ہم بھی ہر ہفتے یہ پروگرام بڑے شوق اور توجہ سے دیکھتے اور ان تینوں کے علم و دانش، دماغ اور یادداشت کے گرویدہ ہو جاتے۔ کبھی گمان میں بھی نہیں تھا کہ ہمارے نصیب کبھی اتنے بلند ہوں گے کہ خدا ان میں سے ایک ہیرے کو ہمارے اتنا قریب لے آئے گا کہ ہم ایک دوسرے کی شادیوں میں بھی شریک ہوں گے۔ ایک دوسرے کے بچوں سے بھی کھیلیں گے اور دکھ سکھ کے ساتھی ہوں گے۔
ہمیں جن سے قربت نصیب ہوئی، وہ تھے پاکستان کا جیتا جاگتا انسائیکلو پیڈیا، پاکستان کا پہلا 'گوگل دماغ،' عبید اللہ بیگ!
’تم مصطفی راہی بیگ کو جانتے ہو؟‘
خدا کا کرنا کیا ہوا کہ تقرّری کے فوراً بعد بیگ صاحب کو اسلام آباد رپورٹ کرنے کے لیے کہا گیا اور وہ خصوصی پروجیکٹ اور اہم دستاویزی فلمیں بنانے پر مامور ہوئے۔
دستاویزی فلموں میں پس پردہ آواز کے لیے کبھی کبھی انہیں ہماری ضرورت پڑتی اور یوں ہمارا ان سے رابطہ شروع ہوا جس کے بعد ان کی دلآویز شخصیت اور بھی نکھر کر سامنے آگئی۔
وہ انتہائی سادہ مزاج، محبت کرنے والے، ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے۔ وہ کبھی اپنی شخصیت اور علمیت کا رعب دوسروں پر نہیں ڈالتے تھے۔ ان کے مزاج میں غرور اور تکبُر کا شائبہ تک نہیں تھا اور یہی وصف ان کی عظمت کی دلیل تھا۔
وہ ہر شخص کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ تو ہم بھی ان کے پرستار ہو گئے۔ مگر بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ جب بھی میں انہیں دیکھتا تو سوچتا کہ کیا ان سے مصطفیٰ راہی بیگ کا ذکر کروں جو اکثر کہتے تھے کہ عبید ہمارے پرانے دوست ہیں، مراد آباد کے زمانے کے!
لیکن میں ان کی بات سن کر مسکرا دیتا تھا کہ ہر بڑے اور مشہور آدمی کے ساتھ لوگ یوں ہی رشتے جوڑ لیتے ہیں۔ مگر وہ ہر بار مجھ سے ضرور پوچھتے کہ بھئی تم نے عبید میاں سے ہمارا ذکر کیا ؟ کسی دن لے آؤ انہیں گھر پر۔
وہ بڑے اعتماد اور خلوص سے کہتے۔ مگر میری ہمت نہیں پڑتی تھی کہ اتنے بڑے اسٹار سے ایسی فرمائش کروں۔ انہیں یاد بھی ہو گا کہ نہیں۔ اور اگر پہچاننے سے انکار کر دیا تو اپنے ماموں جان کو کیا جواب دوں گا اور ان کی خواہ مخواہ سُبکی ہو گی۔
بہر حال اسی کشمکش میں کافی عرصہ بیت گیا۔ ایک مرتبہ بیگ صاحب نے پھر مجھے بلایا اور پڑھنے کے لیے ایک سکرپٹ دیا۔ میں جب فارغ ہوا تو میں نے اسکرپٹ پر اپنا نام لکھا "خالد حمید بیگ۔" تو وہ چونک پڑے، "ارے تم بیگ ہو؟"
اس سے پہلے میں زیادہ تر صرف خالد حمید ہی لکھتا تھا۔ اس انکشاف پر وہ بڑے خوش اور متجسس ہوئے۔ میرے خاندان کی تمام تفصیلات پوچھ ڈالیں۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ وہ تاریخ اور خاص طور پر مغلیہ تاریخ پر عبور رکھتے تھے۔ تو انہوں نے ہمارے آباؤ اجداد کا شجرہ ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا۔ جس کا ہمیں خود بھی علم نہ تھا۔ بس یہی وہ لمحہ تھا جب ہم نے ہمت کرکے ذکر کیا کہ مرادآباد، بھارت میں آپ کے ساتھ مصطفٰی راہی بیگ ہوتے تھے بچپن میں۔
یہ سن کر تو وہ اچھل پڑے۔ "ارے تم انہیں کیسے جانتے ہو؟ میں تو انہیں بہت عرصے کراچی اور سب جگہ تلاش کرتا رہا ہوں۔"
میں نے انہیں بتایا کہ وہ میری امّی کے فرسٹ کزن اور میرے ماموں ہیں اور وہ یہیں رہتے ہیں۔ یہ سن کر وہ اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے اور کہنے لگے، "ابھی لے چلو مجھے مصطفیٰ بھائی کے پاس۔"
اب مجھے یہ مشکل درپیش تھی کہ وہاں فون تھا نہیں اور میں اچانک اتنی بڑی شخصیت کو بغیر اطلاع ان کے گھر کیسے لے جاتا۔ اس لیے میں نے آئندہ کے وعدے پر ہامی بھر لی۔
بیگ صاحب نے کہا کہ پہلی فرصت میں تم ہمیں ملواؤ ان سے اور ہاں شرط یہ ہے کہ بھابھی سے کہنا کہ کسی قسم کا تکلف نہ کریں۔ بس وہ ماش کی سفید دال اور اس کے ساتھ کوفتے بنا دیں۔ یہ کھانا وہ یقیناً بہت اچھا بناتی ہوں گی۔
اب میں نے جاکر ماموں ممانی کو اطلاع دی۔ وہ سارا گھرانا تو شاد ہو گیا اور وقت طے ہو گیا۔ جب ہم وقت مقرّرہ پر وہاں پہنچے تو یہ منظر دیدنی تھا۔ دو بچپن کے ساتھی، بچھڑے ہوئے بھائی ایسے ملے کہ سب اشک بار تھے۔
مراد آباد کی چاندنی دادی
اصل میں مرادآباد، انڈیا میں ایک معروف چہیتی شخصیت تھیں چاندنی دادی جو کم عمری میں ہی بیوہ ہو گئی تھیں۔ لیکن وہ خاندان کی ایسی مقبول شخصیت تھیں کہ سارے بچے ان کے گرد جمع رہتے اور وہ ان کی اعلٰی تربیت کرتی تھیں۔
یوں سمجھیے کہ وہ کراچی کے ٹی وی ڈراموں کے ایک مشہور کردار 'اکاّ بوا' کی طرح تھیں جن کے سب گرویدہ تھے۔ انہی چاندنی دادی کی گود میں پلنے والے دو ہونہار بچے مصطفیٰ راہی اور عبید اللہ بیگ بھی تھے اور شاید ان کی تربیت ہی کا نتیجہ تھا کہ دونوں کے مزاج، انداز اور طبیعت میں حد درجہ مماثلت تھی۔
البتہ یہ ضرور تھا کہ راہی صاحب ایک گوشہ نشین، درویش صفت اور کم گو شخص تھے جو اپنی کتابوں کی دنیا اور شعر و شاعری میں گم رہتے۔ وہ جگر مراد آبادی کے ایک چہیتے شاگرد اور ان کے عاشقوں میں سے تھے جنہوں نے اپنی زندگی میں کئی کتابیں ان پر لکھیں۔ یہ ایسے تحقیقی مقالے ہیں جنہیں یہاں واشنگٹن ڈی سی کی مشہور لائبریری آف کانگریس میں بھی ریفرنس کے لیے رکھا گیا ہے۔
ان کے مقابلے میں بیگ صاحب ایک مشہور اور مقبول مجلسی شخصیت تھے۔
اب جو دونوں کا برسوں بعد ملاپ ہوا تو وہ اپنے ماضی میں ایسا کھوئے کہ گھنٹوں کی خبر نہ ہوتی۔ میری یہ ذمے داری بن گئی کہ میں اکثر اس ملاقات کا اہتمام کرتا۔
منظر یہ ہوتا کہ دونوں بھائی اکثر خاموش بیٹھے، سگریٹ کے کش لیتے رہتے اور بچپن کی یادوں میں کھوئے رہتے۔ بھابھی گاہے بگاہے تازہ چائے سے ان کی تواضع کرتی رہتیں۔
چنچل لڑکی اور سنجیدہ آدمی
بیگ صاحب جب گھر وغیرہ لے کر راولپنڈی میں باقاعدہ رہائش پذیر ہوئے تو پھر گھر بسانے کی فکر ہوئی کہ اکیلے کیسے رہیں۔ زندگی کی ساتھی کے لیے ان کی نظرِ انتخاب سلمیٰ اثر پر پڑی جو معروف دانش ور اور پروفیسر جی ایم اثر کی سب سے چھوٹی صاحب زادی اور ٹی وی کی ایک بہت مقبول اناؤنسر تھیں۔
ایک انتہائی شوخ و چنچل، خوش باش سلمیٰ پی ٹی وی چکلالہ کی ایک مقبول شخصیت تھیں جو ہر جگہ چہکتی پھرتیں اور قہقہے بکھیرتی رہتی تھیں۔ ان کی دو بڑی بہنوں میں سے ایک ٹی وی ہی کے ایک معروف کیمرہ مین نصیر ملک اور دوسری مشہور میزبان عکسی مفتی سے بیاہی ہوئی تھیں۔ اس لیے بھی سلمیٰ کو سب ٹی وی کے خاندان کا ہی سمجھتے اور پیار کرتے تھے۔
جب بیگ صاحب نے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو ٹی وی میں ہلچل سی مچ گئی کیوں کہ کہاں ایک لا ابالی سی نوجوان لڑکی اور کہاں ایک سنجیدہ بردبار شخص۔ مگر بیگ صاحب کا کہنا تھا مجھ جیسے خاموش اور سنجیدہ آدمی کی زندگی میں ایسی ہی چنچل لڑکی کی ضرورت ہے۔
شادی انتہائی سادگی سے انجام پائی اور چوں کہ بیگ صاحب کے تمام عزیز کراچی میں تھے اور فوری طور پر آ نہیں سکتے تھے، اس لیے ٹی وی کے افسران اور دوستوں کے علاوہ ہم اور ہمارے ماموں کے گھر والے باراتیوں میں شامل تھے۔
وہیں بیگ صاحب نے اپنی بھابھی اور میری ممانی سے فرمائش کر دی کہ کل ماش کی دال اور کوفتے بنائیے، ہم ولیمہ آپ کے گھر کریں گے اور یوں وہ نئی دلہن کو لے کر بھائی کے گھر آگئے اور سلمیٰ کو کہہ دیا کہ یہ تمہارا دوسرا گھر ہے۔ یہ صرف لفظی اظہار نہیں تھا بلکہ بعد میں دونوں نے یہ رشتہ نبھایا بھی۔
جیسا کہ بیگ صاحب کا خیال بھی تھا، سلمٰی ان کی زندگی میں خوشیوں کی بہار لے کر آئیں۔ دونوں میں محبت، پیار، ہنسی مذاق بے مثالی تھا۔ یہ بالکل بھی ایک روایتی جوڑا نہیں تھا اور اللہ کا ان پر ایسا انعام ہوا کہ تین پیاری پیاری بیٹیاں انہیں عطا ہوئیں جن سے ان کا گھرانہ ایک مکمل جنّت بن گیا جہاں ہر وقت قہقہے گونجتے رہتے۔
بیگ صاحب گھر آتے تو یہ معمول تھا کہ ان کی تینوں شہزادیاں چھپ جاتیں اور وہ انہیں باری باری ڈھونڈتے، پیار کرتے۔ چھوٹی عینا ان کے کاندھوں پر چڑھ جاتی اور مریم اور فاطمہ ان کی گود پر قبضہ کر لیتیں۔
بصد اصرار وہ بیٹیوں سے کپڑے تبدیل کرنے کی اجازت لیتے۔ مہمانوں کے لیے ان کا گھر ایک تفریح گاہ تھا۔ یہاں جو آتا اپنے سارے غم بھول جاتا تھا اور سلمٰی کہتیں کہ میرا میاں تو مہمان کے آگے لیٹ جاتا ہے کہ کھانا کھائے بغیر نہیں جانے دوں گا اور پھر جو دال روٹی ہوتی سامنے رکھ دیا جاتا۔
پھر ہماری شادی میں شرکت کے وقت ان کی خوشی اور ذوق و شوق دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔
دلہن کے وکیل
وہ بے انتہا خوش تھے کہ میں ان کی بھتیجی، ان کے بھائیوں جیسے پیارے دوست مصطفٰی راہی کی سب سے چھوٹی بیٹی منزہ بیگم (مونا) سے شادی کر رہا تھا جو انہیں بھی بہت عزیز تھیں۔
بیگ صاحب کا گھرانہ شادی میں ایسے شریک ہوا کہ سلمٰی مونا کو دلہن بنانے سے لے کر ان کے جوڑے ٹانکنے تک ہر کام میں شامل رہیں۔ بچیاں مہندی لگانے اور ڈھولک پر گیت گانے میں مصروف تھیں اور بیگ صاحب دلہن کے وکیل بنے ہوئے تھے۔ دوسری طرف ہم نے اپنا حق جتاتے ہوئے اپنا سہرا پڑھنے کی ذمے داری بھی انہیں دے دی تھی۔
بیگ صاحب کی ساری زندگی بے انتہا محنت سے عبارت تھی۔ وہ ٹی وی کے لیے پروگرام کسوٹی کے علاوہ خصوصی دستاویزی فلمیں بناتے، اسکرپٹ لکھتے اور مختلف پروجیکٹس پر کام کرتے۔ ساتھ ہی صدر ضیاء الحق نے اپنی تقریریں لکھنے کے لیے بھی انہیں مخصوص کیا ہوا تھا جو ایک بھاری ذمے داری تھی۔ وہ یہ تمام کام ایسی خوش اسلوبی سے نبھاتے کہ گھریلو زندگی اور بیٹیوں سے پیار میں کوئی خلل نہ آتا۔
ان کی ان بیش بہا خدمات کے صلے میں حکومتِ پاکستان نے انہیں اعلٰی ترین سول اعزاز تمغۂ حسنِِ کارگردگی سے نوازا۔ بیشتر ٹی وی اعزاز اس کے علاوہ تھے۔
صرف چھ مہینے!
ٹی وی سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کراچی منتقل ہو گئے تھے اور وہاں بھی فلمیں بنانے میں مصروف رہے اور اس کے لیے سندھ، چولستان اور بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں جاتے اور پاکستان کے مناظر کو فلم بند کرتے تھے۔
اس ان تھک محنت نے انہیں بیمار کر دیا۔ جب ہم آخری بار ان سے ملنے ان کے کلفٹن والے گھر میں گئے تو سلمٰی نے بتایا کہ بیگ صاحب کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی۔ چند روز پہلے انہیں دل کی تکلیف ہوئی ہے اور ابھی ایک ٹیسٹ ہونا ہے۔ دعا کرو سب ٹھیک ہو۔
مگر سب ٹھیک نہیں تھا۔ ہم واپس امریکہ آگئے تو معلوم ہوا کہ یہ دل کی تکلیف سے بھی بڑی کینسر کی بیماری تھی اور ڈاکٹروں نے صرف چھ مہینے کی مہلت دی ہے۔ صرف چھ مہینے! اور ٹھیک چھ ماہ بعد 22 جون 2012 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ان کے انتقال پر پورے ملک کی فضا سوگوار تھی۔ عوام کی ایک ہر دلعزیز شخصیت انہیں چھوڑ گئی تھی۔ اخبارات میں ان کے انتقال کی خبریں شائع ہوئیں اور ان پر مضمون لکھے گئے۔ معروف اخبار ڈان نے کیا خوب لکھا کہ پاکستان کا پہلا جیتا جاگتا 'گوگل' آج خاموش ہو گیا۔