گھر سے کرنا کام کا لانا ہے جوئے شیر کا
مثال سنتے آئے تھے کہ ایک ننھی سی چیونٹی دیوہیکل ہاتھی کی سونڈ میں گھس جائے تو اسے ڈھیر کردیتی ہے۔ اصحاب فیل کا قصہ بھی پڑھا ہے کہ ہاتھیوں کے جھنڈ تھے جن پر ابابیلوں نے کنکریاں برساکر انہیں شکست فاش دے دی۔ دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ نمرود اور فرعون کا کیسے خاتمہ ہوا۔ چنگیز خان، ہلاکو خان اور ہٹلر جیسے بڑے بڑے سورما دنیا فتح کرنے نکلے لیکن راستے میں مارے گئے یا کوئی چھوٹا سا علاقہ فتح کرکے فاتح عالم کا تاج اپنے سر سجالیا۔
لیکن بھائی یہ کرونا کیا بلا ہے جو شہر کے شہر، قریےکے قریے، ملکوں کے ملک ڈھاتا چلا جارہا ہے اور رکنے کا نام نہیں لیتا۔ جو نہ دکھائی دیتا ہے، نہ سنائی دیتا ہے، جس کی بظاہر نہ کوئی ہئیت ہے نہ وجود۔ خوردبینوں سے تلاش کریں تو چھوٹے سے جرثومے جیسا۔ عام حالات میں بندہ کہے کہ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ!
مگر نہیں بابا نہیں، کہیں ناراض ہی نہ ہوجائے کہ میری توہین کردی۔ اور کہے کہ دکھاؤں اپنا جلوہ؟ اور اگلے ہی لمحے ہم پڑے ہوں الٹنگ۔ جناب کیا تباہی مچائی ہے اس نے۔ نہ کوئی فوج، نہ لاؤلشکر، نہ توپیں، نہ لڑاکا طیارے، نہ بحری جہاز، نہ میزائل اور نہ ایٹم بم، مگر پوری دنیا ہیروشیما اور ناگاساکی ہوئی پڑی ہے۔
کہاں،کیسے اور کب یہ کمبخت جسم میں گھس جاتا ہے اور آناً فاناً فرعون جیسا مغرور، بکتربند جیسا مضبوط، بحری جہاز جیسا دیوہیکل اور جیٹ طیارے جیسا پھرتیلا انسان چاروں خانے چت ہوجاتا ہے۔ اور پھر یہیں بس نہیں کرتا بلکہ ایک سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے انسان کی سرحدیں پار کرتا، آبادیوں کو تاراج کرتا چلا جاتا ہے۔ اس کی نہ کوئی حد ہے نہ کوئی روک۔ کوئی ہھتھیار اس پر اثر نہیں کرتا۔ نہ سپر طاقت دیکھتا ہے نہ غریب ملک۔ جھونپڑی سے لے کر محلات تک پر یکساں وار کرتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ پوری دنیا پر سناٹا چھایا ہوا ہے۔ ہو کا عالم ہے۔ بازار بند، سڑکیں ویران، سکول کالج دفتر سائیں سائیں کررہے ہیں۔ لوگ گھروں میں دُبکے بیٹھے ہیں۔ نہ مصافحہ ہے نہ معانقہ، نہ عبادتیں نہ ریاضتیں، نہ جماعت نہ طواف، نہ محفلیں نہ طعام،
شاعر سے معزرت کے ساتھ
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی قبر نہ پائی تو کدھر جائیں گے
پہلے پہل تو لوگ اسے مزاق ہی سمجھتے رہے اور جگت باز جگتیں کرتے رہے۔ مگر پھر ایک رات جب سونامی سر پر آگیا تو جنگ کا نقارہ بج گیا۔ دفتر، کاروبار، سکول سب بند ہونا شروع ہوگئے۔ ہمیں اطمینان تھا کہ میڈیا ہر حال میں کام کرتا ہے۔ پینتالس سے زیادہ زبانوں کی نشریات والا وائس آف امریکہ کا دفتر کہاں بند ہوسکتا ہے۔ لیکن اچانک ایک دن حکم نامہ آیا کہ گھر سے کام کرنے کی تیاری کرو۔ ہم نے بادلِ نخواستہ حکم نامے پر دستخط کردیے لیکن زعم یہ تھا کہ سب کام گھر سے ہوسکتے ہیں لیکن خبریں اور وہ بھی فیس بک کی گھر سے کیسے ہوسکتی ہیں۔ مائیک، کیمرا اور سٹوڈیو کہاں سے آئے گا۔
لیکن جناب پھر دیکھا کہ اور شہروں اور ملکوں کی طرح واشنگٹن ڈی سی بھی بند ہونا شروع ہوگیا۔ ہمارے دفتر کے مختلف شعبے اور لوگ بھی گھر سے کام کرنے لگے۔ اس میں اور تیزی اس وقت آئی جب سٹوڈیو کے ایک انجینرٔ میں وائرس کا شک ہوا۔ دہشت پھیل گئی اور سٹوڈیو بند ہوگئے۔ ہمارے ٹی وی والوں نے کیمرے سنبھالے اور باہر خوبصورت لوکیشنز پر جاکر نشریات کرنے لگے۔ ریڈیو کے بھی کچھ ساتھیوں نے گھر سے کام کرنے میں عافیت جانی۔ اب رہ گئے ہم اور دو چار ساتھی،ج و میدانِ جنگ میں آخر وقت تک ڈٹے رہے۔ گو کہ حالت خراب تھی کہ کہیں سے کوئی حملہ نہ ہوجائے کیونکہ سامانِ دفاع کچھ ہے نہیں۔ چند دن اس کسمپرسی کی حالت میں گزرے۔ پھر کوچ کا حکم آگیا۔
کچھ تکنیکی ماہرین نے موبائل فون سے ریڈیو اور فیس بک براڈکاسٹ کے بارے میں سمجھاکر ایسے گھر بھیج دیا جیسے تیراکی نہ جاننے والے کو سمندر میں دھکا دے دیتے ہیں۔
پریشانی کے عالم میں گھر آگئے کہ یہ سب کیسے ہوگا۔ ایسے میں بیوی اور بیٹی مدد کو آئیں اور مشورہ دیا کہ بیٹی مدیحہ کے کمرےکو، جو شادی ہوکے پیا دیس جاچکی ہیں، سٹوڈیو بنادیا جائے۔ اس تجویز پر فوراً عمل کرتے ہوئے کمرے کی اکھاڑ پچھاڑ شروع کردی۔ بستر کے فوم کو کھڑکی کے ساتھ اور اس کے تختے کو دیوار کے ساتھ لگادیا گیا تاکہ باہر کا شور اندر نہ آسکے۔ لکھنے والی میز کو بیچ میں رکھ کر ڈیسک بنادیا۔ بیٹی ربیعہ نے اپنا کمپیوٹر حوالے کیا تاکہ ای میل، خبریں اور دوسری معلومات تک رسائی ہو۔ایک پرنٹر خریدا گیا جو بہت ضروری تھا۔
ریڈیو کا بلیٹن تو آسان تھا کہ خبریں چھاپ کر موبائل فون کے ایک ریکارڈر میں بھرکر پروڈیوسر انجم گل کو بھیج دیں جو اس کی قطع برید کرکے نشریہ میں ڈال دیتے ہیں۔ مسٔلہ فیس بک کا تھا کہ وہ کیسے ہوگا۔
اللہ بھلا کرے بیٹے حارث کا جو کیلی فورنیا میں اسی شعبے میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بہت پہلے ایک کیمرا لائٹ بھیجی ہوئی تھی۔ وہ کام آگئی۔ مائیکروفون ہمارے دفتر کے ساتھی فواد الیاس لے آئے۔ کمرے کی سیٹ ڈیزائننگ، کپڑوں کا انتخاب، مونا بیگم کی ذمے داری ٹھہرا۔ لیکن سارے تکنیکی امور ربیعہ نے پورے کیے۔ غرض یوں فیس بک کا بلیٹن ہنگامی اور عارضی سٹوڈیو سے آپ تک پہنچ رہا ہے۔
یہ تو صرف میری کہانی ہے لیکن ہمارے دوسری سروسز کے کتنے ہی ساتھی اینکرز اور رپورٹرز ہیں جو اسی طرح گھر میں سٹوڈیو بناکر کام کررہے ہیں اور اپنی اپنی زبانوں میں خبریں پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ لیکن میرا فخر اور اعزاز بالکل جدا ہے کہ جو سفر آج سے کئی دہایٔیوں پہلے ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے بچوں کے پروگرام سے شروع ہوا تھا اور ایک نازک سا رشتہ اپنے سامعین سے جڑا تھا، جو ریڈیو نیوز اور پھر پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین کے دل میں گھر کرتا ہوا قراقرم کے پہاڑوں جیسا مضبوط ہوگیا کہ ہزاروں میل دور امریکہ آکر بھی اس رشتے میں اور لوگوں کی محبت میں کویٔ کمی نہیں آئی۔ بارش ہو یا آندھی، طوفان ہو یا برفباری، خبروں کا یہ رابطہ قائم رہا۔
آج میں بڑے فخر سے کہہ سکتا ہوں کہ دنیا بھر میں تباہی مچانے والا کرونا بھی ہمارے اس رشتے کو نہیں توڑ سکا۔