عالمی سطح پر پھیلنے والی کرونا وائرس کی وبا نے روزمرہ زندگی کے معمولات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ ملازمت، تعلیم، کھیل، تقریبات یا پھر سماجی رابطے، سبھی کچھ بدل گیا اور ایک بے یقینی کی فضا نے روزمرہ زندگی کو بوجھل کر دیا ہے۔
سماجی دوری کا یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا، کوئی نہیں جانتا۔ ماہرین کہتے ہیں اس کا جواب مشکل ہے اور دار و مدار اس بات پر ہے کہ سماجی دوری کس حد تک مؤثر ثابت ہوتی ہے اور کرونا کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے میں کتنی مدد ملتی ہے۔
حال ہی میں امریکہ میں اپریل کے اختتام تک اس سماجی دوری کو قائم رکھنے کا اعلان کر دیا گیا ہے اور یہی ماہرین کا خیال ہے کہ اس عرصے میں صورت حال کو بہتر بنانے میں مدد مل سکتی ہے بشرطیکہ اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
دوسری جانب عبداللہ شیہاپر اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ اگرچہ سماجی دوری کرونا انفیکشن کی روک تھام کے لئے ضروری ہے، لیکن اکیلا پن اور تنہائی بھی ہمیں بیمار کر سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کرونا کا شکار ہونے والوں یا اس سے متاثر ہونے والے افراد کو اکیلا رکھنا ضروری ہے۔ تاہم اس کے نتیجے میں سماجی اور جذباتی تنہائی کو پیدا ہونے سے روکنا بھی ضروری ہے۔
ہیلتھ ریسورز اینڈ سروسز ایڈمنسٹریشن نے خبردار کیا ہے کہ تنہائی اور اکیلے پن کے جذبات سے ڈپریشن میں اضافے کا امکان ہے بلکہ بلڈ پریشر بھی بڑھ سکتا ہے۔ اور سب سے خطرناک پہلو یہ کہ اس کی وجہ سے انفیکشن کا مقابلہ کرنے والے انسانی مدافعتی نظام کی صلاحیت بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
یہ تو ہوئے مسائل اور آئیے اب دیکھتے ہیں کہ اس سلسلے میں کیا کیا جائے اور کس طرح اس دشوار وقت میں ہم اس کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ جن ملکوں میں یہ صورت حال کچھ عرصے سے جاری ہے، وہاں لوگ اس کا مقابلہ کس طرح کر رہے ہیں۔
چین کے شہر ووہان جہاں سے کرونا وائرس کا آغاز ہوا وہاں بھی لوگ سماجی دوری کے ساتھ ساتھ رابطوں کو بحال رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بعض افراد کانسرٹس اور جم کلاسز کو آن لائن سٹریمنگ کے ذریعے براہ راست دکھا رہے ہیں۔
ووہان شہر کے لوگ اپنے گھروں کی کھڑکیوں سے کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے نعرے لگاتے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم بھی رابطے برقرار رکھنے کی کوشش کریں۔ جن معمر افراد کو جانتے ہیں، ان کو تنہا نہ چھوڑیں اور ان سے مستقل رابطے میں رہیں۔ اگر سہولت ہو تو ویڈیو چیٹ پر بات چیت میں اضافہ کیا جائے۔
اس سارے تناظر میں ہم نے بات کی ڈاکٹر مبین راٹھور سے جو یونیورسٹی آف فلوریڈا میں پروفیسر ہیں اور وولفسن چلڈرنز ہاسپیٹل فلوریڈا اور جیکسن ول میں متعدی امراض کے شعبے کے سربراہ بھی ہیں۔ ہم نے ان سے پوچھا کہ ان کے خیال میں اس وبا کا خاتمہ کب تک ممکن ہو پائے گا۔
ڈاکٹر راٹھور نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وبا کے خاتمے کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ ہم صرف اتنا جانتے ہیں کہ اس کا زیادہ انحصار ان اقدامات پر مؤثر عمل درآمد پر ہے جو ہم اس وبا کی روک تھام کے لئے اٹھا رہے ہیں۔ آئندہ چند ہفتوں اور مہینوں کے دوران ہم بہتر طور پر اندازہ لگا سکیں گے کہ وبا کب ختم ہو گی۔ ابھی اس کے خاتمے کے بارے میں بات کرنا قبل از وقت ہے۔
ڈاکٹر راٹھور سے ہمارا دوسرا سوال یہ تھا کہ طبی عملہ کرونا وائرس کی اس لڑائی میں کس حد تک کامیاب ہے۔ ڈاکٹر راٹھور کہتے ہیں کہ طبی عملہ اس وبا سے نمٹنے کے لئے محدود وسائل کے ساتھ بھی اپنی بہترین کوششیں کر رہا ہے۔ طبی عملہ نئی اختراعات بھی کر رہا ہے اور جب جہاں ضرورت پڑے معمول کے طریقہ کار میں تبدیلیاں بھی کرتا ہے۔ مناسب ذاتی حفاظتی ساز و سامان کے فقدان سے طبی عملے کو غیر ضروری خطرہ لاحق ہے۔ اس وبا سے براہ راست نمٹنے والے عملے کے افراد حقیقی ہیروز ہیں کیونکہ وہ اپنے مریضوں کی مدد کرنے کے لئے خود بھی خطرے کا سامنا کر رہے ہیں۔
پریشانی اور خطرہ اپنی جگہ لیکن اب انفرادی سطح پر ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اس وبا کا مقابلہ کرنے اور اسے شکست دینے میں اپنا مثبت کردار نبھائیں۔ دوسروں کو اور خود کو محفوظ رکھنے کے سارے ضابطوں پر بہترین انداز میں عمل کریں تاکہ جلد سے جلد اس سماجی دوری کو ختم کرتے ہوئے اپنے رشتوں اور رابطوں کا پہلے سے زیادہ احترام کریں اور ایک ایسی زندگی کا آغاز ہو جو ہمیں پہلے سے زیادہ ایک دوسرے سے قریب کر دے اور معاشرے میں پڑی تقسیم کی دراڑ کو پاٹ دے۔
آج ہمیں ایک دوسرے کو اختلاف رائے کے باوجود کھلے دل سے تسلیم کرنے کی جو ضرورت ہے وہ اس سے پہلے کبھی اتنی زیادہ نہ تھی۔ ویسے بھی آزمائش زندگی کی قدر و قیمت میں اضافہ کر دیتی ہے۔ آئیے اس قدر و قیمت کا احترام کریں اور اپنے درمیان تلخی اور مخاصمت کے جذبات کو ختم کر کے ایک بہتر دنیا کی تخلیق کریں جو آج کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔