افغانستان کے لیے امریکہ کے خصوصی مندوب زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ اگر طالبان افغان امن عمل کو مسترد کرتے ہیں تو بائیڈن انتظامیہ افغان عوام کے ساتھ کھڑی ہو گی۔
زلمے خلیل کا تاشقند، دوحہ، کابل اور دوشنبے کا دورہ مکمل کرنے کے بعد سلسلہ وار ٹوئٹس میں کہنا تھا کہ اگر طالبان امن کا انتخاب نہیں کرتے تو امریکہ ان افغانوں کے ساتھ ہو گا جو ملک کو متحد رکھنا چاہتے ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کا سیاسی طور پر متحد رہنا لازم ہے۔
زلمے خلیل کا مزید کہنا تھا کہ بین الاقوامی اتفاق رائے صرف امن تک محدود نہیں ہے۔ دنیا افغانستان کے ساتھ اس مرحلے پر بھی تعاون جاری رکھے گی۔
افغان امن عمل کے لیے تعینات امریکی خصوصی نمائندے کا یہ بیان ایسے موقع پر سامنے آیا ہے کہ جب یورپی یونین اور نیٹو کے ساتھ ساتھ فرانس، جرمنی، اٹلی، ناروے، برطانیہ اور امریکہ کے سفارت کار طالبان کو موسم گرما میں کیے جانے والے حملوں کو بند کرنے اور مذاکرات کی میز پر واپس آنے سے متعلق خبردار کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ جرمنی کے وزارتِ داخلہ کی جانب سے جمعے کو جاری مشترکہ بیان میں افغانستان میں طاقت کے ذریعے حکومت کے قیام کی مخالفت کی گئی جس سے خطے کے امن کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
دوسری طرف طالبان کے سیاسی دفتر کے نائب سربراہ شیر محمد عباس نے ان سفارت کاروں کے ساتھ ویڈیو کے ذریعے کی جانے والی گفتگو میں طالبان کی انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق سے متعلق پالیسیوں کے بارے میں آگاہ کیا۔
طالبان کے دوحہ میں تعینات ترجمان ڈاکٹر محمد نعیم نے سفارت کاروں کو افغانستان میں تعینات مغربی سفارت کاروں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی حفاظت کی ضمانت دی۔
دوسری طرف افغان سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ افغان سیکیورٹی فورسز نے گزشتہ دو دن کے دوران سات صوبوں میں طالبان کے خلاف کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
وزارت دفاع کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران طالبان نے 20 صوبوں اور 69 اضلاع میں 123 حملے کیے ہیں۔
علاوہ ازیں گزشتہ روز امریکہ کے وزیرِ خارجہ اینٹنی بلنکن نے کہا تھا کہ اگر افغانستان میں مستقبل کی کوئی بھی حکومت خواتین یا لڑکیوں کو حاصل حقوق واپس لیتی ہے تو اس کو بین الاقوامی برادری سے کوئی مدد حاصل نہیں ہو گی اور وہ دنیا سے الگ تھلگ ہو کر رہ جائے گی۔
وزیرِ خارجہ نے افغانستان سے انخلا کے فیصلے کا یہ کہتے ہوئے دفاع کیا کہ امریکہ افغانستان میں نائن الیون کے دہشت گرد حملے کے نتیجے میں اس کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچانے گیا تھا اور اس بات کو یقینی بنانے کہ افغانستان کی سر زمین سے دوبارہ ایسے حملوں کی منصوبہ بندی نہ ہو سکے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کو 10 سال پہلے کیفر کردار تک پہنچایا جا چکا ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا تھا کہ امریکہ افغاستان سے اپنی فوج نکال رہا ہے لیکن اس سے تعلق ختم نہیں کر رہا۔ افغانستان کے لیے بھرپور مدد جاری رکھی جائے گی۔ دیگر ممالک بھی افغانستان کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔
انہوں نے واضح کیا تھا کہ امریکہ نے تین لاکھ سے زیادہ افغان سیکیورٹی اہلکاروں کو تربیت فراہم کی ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ طالبان کو بھی اب یہ فیصلہ کرنا ہے کہ آیا وہ ملک کو واپس خانہ جنگی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں یا وہ بین الاقوامی برادری سے کسی حد تک خود کو تسلیم کرانا چاہتے ہیں۔