افغان حکام کا کہنا ہے کہ افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے انخلا کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ ایک ہفتے تک بین الاقوامی فورسز متعدد اڈوں کا انتظام افغان سیکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیں گی۔
افغانستان کے قائم مقام وزیرِ دفاع جنرل یاسین ضیا کا قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب اور دیگر افغان حکام کے ہمراہ مشترکہ پریس کانفرنس میں کہنا تھا کہ بین الاقوامی افواج بارام ایئر فیلڈ جائیں گی جس کے بعد وہ اپنی آخری منزل کی طرف روانہ ہو جائیں گی۔
جنرل یاسین کا کہنا تھا کہ شروبک میں تعینات فوجی ممکنہ طور پر کل تک چلے جائیں گے اور اڈے کا انتظام افغان سیکیورٹی فورسز کے حوالے کر دیا جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا سے متعلق کوئی تبدیلی نہیں کی گئی۔
افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے پریس کانفرنس کے دوران طالبان کی طرف سے بین الاقوامی اڈوں کی سیکیورٹی سے متعلق امریکہ کو دی جانے والی کسی ضمانت سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا۔
حمداللہ محب نے اپنی معلومات کے حوالے سے بتایا کہ طالبان افغانستان میں اپنے حملوں میں اضافہ کریں گے۔
انہوں نے پاکستان پر طالبان کی پشت پناہی کا الزام بھی عائد کیا۔
طالبان کا بین الاقوامی افواج کے انخلا کے موقع پر کہنا ہے کہ ان کی لیڈر شپ دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی سے متعلق فیصلہ کرے گی۔
طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا ٹوئٹ میں کہنا تھا کہ معاہدے کے مطابق بین الاقوامی فورسز کے انخلا سے متعلق طے کردہ ڈیڈ لائن گزر چکی ہے۔ اس خلاف ورزی نے مجاہدین کے لیے بین الاقوامی فورسز کے خلاف تادیبی حملے کرنے کی راہ کھول دی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجاہدین اب انتظار کریں گے کہ ان کی اسلامی ریاست کے رہنما کیا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کی روشنی میں ایکشن لیا جائے گا۔
خیال رہے کہ امریکہ کے صدر جو بائیڈن رواں سال اپریل کے آغاز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ یکم مئی سے امریکی فورسز کی واپسی کا عمل شروع ہو کر رواں سال 11 ستمبر تک مکمل ہو گا۔
افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کا عمل ایک ایسے وقت شروع ہوا ہے کہ جب افغانستان میں تعمیرِ نو کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے امریکی ادارے ‘سگاری’ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران افغان سیکیورٹی فورسز پر اندرونی عناصر کی طرف سے حملوں میں 80 فی صد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ جن میں 115 اہلکار ہلاک اور 39 زخمی ہوئے۔
مبصرین کا کہنا ہے اس صورتِ حال میں افغان سیکیورٹی فورسز کے لیے افغانستان میں سیکیورٹی آپریشن کو مؤثر انداز میں جاری رکھنا ایک چیلنج ہوگا۔
وائٹ ہاؤس کی نائب ترجمان نے جمعرات کو نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے تصدیق کی کہ افغانستان میں تعینات امریکی فورسز کے انخلا کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
ان کے بقول انخلا کے عمل کو محفوظ رکھنے کے لیے خطے میں اضافی دستے تعینات اور فوجی سازو سامان منتقل کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی فورسز کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے انخلا کا عمل سوچ سمجھ کر اور ذمہ دارانہ انداز میں جاری رہے گا۔
انہوں نے خبردار کیا کہ کہ اگر مخالفین نے فورسز کے انخلا کے دوران کوئی حملہ کیا تو امریکہ اپنا اور اپنے شراکت داروں کا تمام میسر وسائل کے ذریعے دفاع کرے گا۔
دوسری جانب مغربی ممالک کے عسکری اتحاد نیٹو کے ایک عہدیدار نے وائس آف امریکہ کو تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں بھیجے گئے نیٹو کے سات ہزار فوجیوں میں سے کچھ افغانستان سے واپس چلے گئے ہیں۔
نیٹو کے عہدیدار کے مطابق آئندہ چند ماہ کے دوران افغانستان سے نیٹو فورسز کے انخلا کا عمل مکمل ہو جائے گا۔
اگرچہ بعض حلقوں کی طرف سے اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ شاید افغانستان سے انخلا کے دوران امریکی فورسز پر حملے ہو سکتے ہیں۔ تاہم افغان امور کے ماہر طاہر خان کا کہنا ہے کہ ابھی تک طالبان کے طرف سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ طالبان یکم مئی کے بعد غیر ملکی فورسز پر دوبارہ حملے شروع کر دیں گے۔
طاہر خان کا کہنا ہے کہ طالبان ترجمان سہیل شاہین ایسی اطلاعات کو مسترد کر چکے ہیں۔
طاہر خان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی طرف سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے عمل کو 11 ستمبر تک توسیع دینے کے بارے میں طالبان کی طرف سے کوئی سخت ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ اگرچہ طالبان یہ ضرور کہہ چکے ہیں کہ یکم مئی کی تاریخ تک انخلا کے عمل کا مکمل نہ ہونا دوحہ معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
تاہم طاہر خان کے خیال میں طالبان کے لیے یہ بات باعث اطمینان ہوگی کہ یکم مئی سے افغانستان سے غیر ملکی فورسز کا انخلا شروع ہوگیا ہے۔
دوسری جانب یہ بھی کوشش کی جا رہی ہے کہ طالبان تشدد میں کمی کرتے ہوئے افغان امن مذاکرات میں دوبارہ شامل ہوں۔
طاہرخان کا کہنا ہے کہ ان کی معلومات کے مطابق ماسکو، چین، پاکستان اور امریکہ کے نمائندوں کے دوحہ میں اجلاس کا مقصد بھی یہی ہے۔
علاوہ ازیں طالبان ترجمان نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ امریکہ کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد کی قیادت میں امریکی وفد نے طالبان کے نائب سربراہ رہنما ملا عبدالغنی بردار سے دوحہ میں ملاقات کی ہے۔
سہیل شاہین کے مطابق ملاقات میں افغانستان کی موجودہ صورتِ حال، امن عمل اور اس سے متعلق امور پر تبادلہ خیال ہوا۔
طاہر خان کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکہ، افغانستان سے امریکی فورسز کے انخلا کی یکم مئی کی تاریخ پر عمل نہیں کر سکا لیکن دوسری جانب امریکہ اب بھی دوحہ معاہدے پر قائم ہے اور طالبان بھی اس معاہدے پر قائم ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک پاکستانی وفد بھی طالبان نمائندوں سے ملاقات کے لیے دوحہ میں موجود ہے تاکہ انہیں ترکی میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ملتوی ہونے والی کانفرنس میں شرکت پر آمادہ کیا جا سکے۔
طاہر خان کے بقول ان ممالک کی طرف سے دباؤ ہے جن کی افغانستان میں قیام امن میں دلچسپی ہے ان کی پاکستان سے توقع ہے کہ وہ طالبان کو امن مذاکرات میں شامل ہونے پر قائل کرے۔
دوسری جانب بین الاقوامی امور کے ماہر زاہد حسین کا کہنا ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں افغانستان ایک اہم عنصر رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زاہد حسین نے کہا کہ مستقبل میں بھی اسلام آباد اور واشنگٹن کے تعلقات بھی اسی تناظر میں دیکھے جائیں گے۔
زاہد حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان دوحہ معاہدہ طے کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد بھی پاکستان کا کردار اہم رہے گا۔
ان کے بقول اب امریکہ کو یہ تشویش رہے گی کہ اس خطے میں ایسے عناصر منظم نہ ہو سکیں جو امریکہ کے لیے خطرہ ہوں۔
زاہد حسین کا کہنا ہے کہ شدت پسندی اور دہشت گردی کے تدارک کے لیے پاکستان کا کردار اہم رہے گا۔ اس حوالے سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان تعاون جاری رہ سکتا ہے جو امریکہ کے مفاد میں ہے۔
زاہد حسین کے مطابق پاکستان چاہے گا کہ مستقبل میں یہ تعلقات صرف سیکیورٹی معاملات تک ہی محدود نہ ہوں بلکہ دیگر معاملات بشمول اقتصادی اور تجارتی شعبوں میں تعاون کو بھی فروغ دیا جائے۔
خیال رہے کہ افغانستان سے امریکی فورسز کا انخلا گزشتہ سال دوحہ میں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے تحت شروع ہوا ہے۔ اگرچہ یہ معاہدہ طے پانے کے بعد افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات کے ذریعے ایک سیاسی تصفیہ پانے کی توقعات بڑھ گئی تھیں۔ تاہم گزشتہ سال ستمبر سے افغان فریقین کے درمیان شروع ہونے والے امن مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور افغانستان میں تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہےکہ اس صورت میں افغانستان سے غیر ملکی فورسز کے انخلا کے بعد افغانستان میں امن و امان کی صورت مزید بگڑ سکتی ہے۔