انسانی حقوق سےمتعلق معائنہ کار گروپ کا کہنا ہے کہ شام اور ترکی کی سرحد کے ساتھ کوبانی کے قصبے میں مہینے بھر سے جاری لڑائی مین اب تک 660 سے زائد ہلاکتیں واقع ہو چکی ہیں۔
برطانیہ میں قائم ’سیرئن آبزرویٹری فور ہیومن رائٹس‘ جس کے شام کے اندر ذرائع ہیں، نے جمعرات کے دِن بتایا کہ کوبانی میں کرد افواج سے لڑتے ہوئے داعش کے 374 سے زائد شدت پسند ہلاک ہوچکے ہیں۔
بیان میں کہاگیا ہے کہ 258 کرد جنگجو، کردوں کی حمایت کرنے والے دیگر 10 افراد اور 20 شہری بھی ہلاک ہوچکے ہیں۔
آبزرویٹری نے کہا ہے کہ ہلاکتوں کے بارے میں اُن کی جانب سے دیے جانے والے اعداد دوگنا ہوسکتے ہیں، جس کی وجہ داعش اور کرد افواج دونوں کی طرف سے ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں برتی جانے والی’ انتہائی درجے کی رازداری‘ ہے۔
پینٹاگان کا کہنا ہے کہ کوبانی کے مضافات میں امریکی قیادت میں کیے جانےوالے فضائی حملوں کے نتیجے میں دولت اسلامیہ کے ’سینکڑوں‘ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم، یہ قصبہ اب بھی شدت پسندوں کے قبضے میں جا سکتا ہے۔
اس ہفتے، امریکہ اور سعودی عرب کی جانب سے کوبانی میں شدت پسندوں کے خلاف فضائی کارروائی میں تیزی آئی ہے، جس کا مقصد سرزمین پر موجود کرد ملیشیاؤں کی اعانت کرنا ہے۔
جنیوا میں، انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر، زید رعد الحسین نے شام اور عراق میں داعش کی پیش قدمی اور مغربی افریقہ میں ایبولا بیماری کے پھیلنے کا موازنہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ دونوں دنیا کے لیے ’دوہری آفت‘ کے مترادف ہیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ دونوں خاموشی کے ساتھ پھیلتی ہیں، دنیا اِن سے بے خبر رہتی ہے۔ دنیا کو پتا ہے کہ یہ ایک حقیقت ہے، لیکن وہ اُن کے خوفناک نتائج کو بروقت بھانپ نہیں سکے۔
امریکہ عراق میں دولت اسلامیہ کے ٹھکانوں پر فضائی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔
داعش کی جانب سے کوبانی پر دھاوا بولنے کا عمل ستمبر میں شروع ہوا، اور اس کے نتیجے میں ہزاروں افراد، جن میں زیادہ تر تعداد شام کے کُردوں کی ہے، سرحد پار کرکے ترکی میں داخل ہو چکے ہیں۔