مبصرین کے مطابق وفاق میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد اب اس کی یہ کوشش ہوگی کہ وزیرِ اعظم میاں محمد شہباز شریف کے لیے خیبرپختونخوا کی حکومت کے ذریعے مشکلات پیدا کی جائیں جب کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان محاذ آرائی کا بھی اندیشہ ہے۔
موجود سیاسی صورتِ حال کے حوالے سے سینئر صحافی اور سیاسی تجزیہ کار شاہد حمید کہتے ہیں کہ پنجاب میں اگر معاملات عمران خان کے ہاتھوں سے نکلتے ہیں تو پھر ان کی تمام تر توجہ خیبر پختونخوا پر ہوگی اور ان حالات میں صوبائی اسمبلی کا مستقبل زیادہ تابناک نہیں ہو سکتا۔
پشاور سے شائع ہونے والے اردو روزنامے ’آئین‘ کے ایڈیٹر عرفان خان کہتے ہیں کہ صوبے کے وزیرِ اعلیٰ محمود خان کے ذریعے اب مرکزی حکومت سے ان حقوق کے لیے مطالبے زور پکڑیں گے جو عمران خان بحیثیت وزیرِ اعظم دینے سے انکاری تھے۔ ان حالات میں صوبائی اور وفاقی حکومت کے درمیان حالات کشیدہ ہوں گے ۔
قومی اسمبلی میں وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی منظوری اور اس کے بعد کے حالات پر وائس آف امریکہ سے گفتگو میں شاہد حمید نے کہا کہ اتوار کو اسمبلی میں جو کچھ ہوا اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں صوبائی ایوان میں محاذ آرائی زیادہ ہوگی اور اس محاذ آرائی کو بنیاد بناکر سابق وزیرِ اعظم عمران خان وزیرِ اعلیٰ محمود خان کو اسمبلی کی تحلیل پر آمادہ کرسکتے ہیں۔ ان کے بقول حزبِ اختلاف نے وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد واپس لے کر از خود اسمبلی کا مستقبل تاریک کر دیا ہے۔
سابق وزیرِ اعظم کے دورِ اقتدار کا ذکر کرتے ہوئےعرفان خان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ساڑھے تین سال میں عمران خان نے خیبر پختونخوا کے طرف وہ توجہ نہیں دی تھی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اس دوران وفاقی حکومت نے صوبے کو قومی مالیاتی ایوارڈ میں جائز حق سے بھی محروم رکھا تھا۔ اب محمود خان کی کوشش ہوگی کہ اس جائز حق کے حصول کے لیے شہباز شریف سے مطالبہ کریں اور اسی حوالے سے محاذ آرائی کی جائے۔
ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار جمیل مرغز کا کہنا ہے کہ ماضی میں اگر سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف اور وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ چل سکتی ہیں تو پھر محمود خان کی تحریکِ انصاف کی حکومت کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کے ساتھ چلنے کے بھی امکانات موجود ہیں۔
خیبر پختونخوا اسمبلی کا ماحول اس وقت کشیدہ ہو گیا تھا جب شہباز شریف کے پاکستان کے 23 ویں وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد صوبائی اسمبلی کے اجلا س میں حکمران پی ٹی آئی اور مسلم لیگ( ن) کے بعض قانون سازوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرہ بازی کی۔ اس دوران ان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔
پیر کو حزبِ اختلاف کے بعض اراکین نے وفاق میں عمران خان کی حکومت کے خاتمے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اسمبلی میں نعرے بازی شروع کر دی تھی۔ردِ عمل میں پی ٹی آئی کے اراکین نے بھی جوابی نعرے لگائے جس کی وجہ سے ایوان بدنظمی کا شکار ہوا۔
پریس گیلری میں موجود صحافیوں کے مطابق دو نوں جانب سے تلخی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ پی ٹی آئی کے صوبائی وزیر انور زیب اور پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی نگہت یاسمین اورکزئی غصے میں ایک دوسرے کی جانب بڑھے البتہ دیگر ارکانِ اسمبلی نے مداخلت کرکے دونوں کو ہاتھا پائی سے روکا۔ صحافیوں کے مطابق اس دوران نگہت یاسمین بے ہوش بھی ہوئیں جنہیں طبی امداد کے لیے لیڈی ریڈنگ اسپتال منتقل کیا گیا۔
وزیرِ اعلیٰ محمود خان بھی اس دوران ایوان میں موجود ہے اور وہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کے اراکینِ اسمبلی کو خاموش رہنے کی تلقین کرتے رہے لیکن دوسری جانب حزبِ اختلاف کے بعض اراکین کی طرف سے نعرے بازی جاری رہی۔
وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد
وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے خلاف آٹھ اپریل کو پیش ہونے والی تحریکِ عدم اعتماد پر حزبِ اختلاف کے 42 قانون سازوں نے دستخط کیے تھے۔
تحریکِ عدم اعتماد اس وقت پیش کی گئی تھی جب سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلا ف قومی اسمبلی میں حزبِ اختلاف کی پیش کرد ہ تحریکِ عدم اعتماد پر رائے شماری نہیں ہوئی تھی اور اس بات کا اندیشہ تھا کہ عمران خان وزیر اعلیٰ کو خیبر پختونخوا کی اسمبلی تحلیل کرنے کا کہہ سکتے ہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے پارلیمانی لیڈر سردار حسین بابک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ متحدہ اپوزیشن صوبائی حکومت کی تحلیل نہیں چاہتی ۔ وزیرِ اعلیٰ محمود خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد جمع کرانے کا مقصد صوبائی اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچانا تھا۔
پیر کو اسمبلی اجلاس شروع ہونے سے قبل سردار بابک اور حزبِ اختلاف کی دو دیگر جماعتوں کے اراکین نے تحریکِ عدم اعتماد واپس لینے کا اعلان کیا لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تین اراکینِ صوبائی اسمبلی نے اس اعلان پر سخت ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کو اعتماد میں لیے بغیر یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
وزیرِ اعلیٰ کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی واپسی کے بعد سابق وزیرِ قانون سلطان محمد خان نے وزیرِ اعلیٰ پر اظہارِ اعتماد کی قرارد پیش کر دی جس کے حق میں 88 ووٹ آئے جب کہ مخالفت میں تین ووٹ ڈالے گئے۔ تاہم حزبِ اختلاف نے گنتی کے طریقۂ کار پر اعتراض کیا ۔
اے این پی، جمعیت علماء اسلام( ف)، پیپلز پارٹی اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اراکین نے اسپیکر پر اظہارِ اعتماد کی قرارداد پر رائے شماری میں حصہ نہیں لیا۔ اظہارِ اعتماد کی تحریک پر کارروائی مکمل ہونے کے بعد اسپیکر نے اجلاس 10 مئی تک ملتوی کر دیا۔
قبل ازیں وزیرِ اعلیٰ محمود خان نے کہا تھا کہ صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد واپس لینا ان کا اپنا فیصلہ تھا۔ وہ تحریکِ عدم اعتماد کا سامنا کرنے لیے تیار تھے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ حزبِ اختلاف نے حکمران جماعت پی ٹی آئی کے بعض اراکینِ اسمبلی کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی لیکن اپوزیشن کو مایوسی ہوئی۔
دوسری جانب صوبائی اسمبلی میں جماعت اسلامی نے ایوان میں اپنی آزادانہ حیثیت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ جماعت اسلامی کے چار اراکین نہ تو وزیرِ اعلیٰ کے خلاف پیش ہونے والی تحریکِ عدم اعتماد کا حصہ بنے اور نہ ہی انہوں نے وزیرِ اعلیٰ پر اظہارِ اعتماد کے لیے پیش ہونے والی تحریک کی رائے شماری میں حصہ لیا۔
اسمبلی اجلاس شروع ہونے سے قبل وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کی صدارت میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ایک نئی جدو جہد کا نکتۂ آغاز ہے اور اس جدوجہد میں عوام ان کے ساتھ ہیں۔
محمود خان نے کہا کہ 13 اپریل کو پشاور میں ہونے والے جلسے میں پی ٹی آئی کے سربراہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان شرکت کریں گے۔