رسائی کے لنکس

عمران خان کے وہ غیر مقبول فیصلے جن کا نقصان ٹیم کو ہوا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

عمران خان کا شمار پاکستان کی کرکٹ ٹیم کے ان کپتانوں میں ہوتا ہے جنہوں نے آخری گیند تک لڑ کر کرکٹ کے میدان میں کئی مشکل مقابلے اپنے نام کیے۔

عمران خان کی قیادت میں جہاں پاکستان نے 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتا وہیں کئی ایسے میچز میں بھی کامیابی سمیٹی جن میں جیت ناممکن نظر آرہی تھی۔

ان کامیابیوں میں عمران خان کو اپنے ساتھیوں کے مفید مشورے بھی ملتے رہے اور انہوں نے کچھ ایسے فیصلےبھی کیے جن کی وجہ سے کبھی پاکستان کرکٹ ٹیم کی جگ ہنسائی ہوئی تو کبھی گرین شرٹس کو مشکلات کاسامنا کرنا پڑا۔

اگرچہ عمران خان کرکٹ کے کھیل سے متعلق اپنی سوجھ بوجھ اور بروقت فیصلوں کی وجہ سے شہرت رکھتے تھے لیکن کئی مرتبہ انہوں میدان میں ایسے قدم بھی جنھیں ان کے مداح اور ناقدین دونوں ہی سمجھ نہیں پائے۔

جاوید میانداد 20 رنز کی کمی سے ٹرپل سینچری سے محروم

سابق کپتان عمران خان فیلڈ میں جب بھی مشکل میں پھنسے، انہیں مشکل سے نکالنے کے لیے جاوید میانداد نے اپنا کردار ادا کیا لیکن جب جاوید میانداد اپنے کریئر کی واحد ٹرپل سنچری سے صرف 20 رنز کی دوری پر تھے تو عمران خان نے اننگز ڈیکلیئر کر دی۔ بعض مبصرین کے مطابق انہوں نے یہ فیصؒہ کرکے اپنے سب سے قریبی دوست کے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا۔

مبصرین کہتے ہیں کہ 1983 میں بھارت کے خلاف حیدرآباد میں کھیلے جانے والی ٹیسٹ سیریز کے چوتھے میچ میں عمران خان نے اننگز اس لیے ڈیکلیئر کی کیوں کہ جاوید میانداد سست بلے بازی کر رہے تھے اور پاکستان کو میچ جیتنا تھا۔ اگر اس میچ کے اسکور کارڈ پر نظر ڈالی جائے تو جاوید میانداد کے 460 گیندوں پر 280 رنز ناٹ آؤٹ کسی بھی حال میں سست بلے بازی قرار نہیں دی جاسکتی۔

جب میچ کے دوسرے دن کا کھیل ختم ہوا تو جاوید میانداد 238 رنز پر ناقابلِ شکست تھے اور ظہیر عباس نے صرف چار رنز بنائے تھے جب کہ تیسرے دن جب عمران خان نے اننگز ڈیکلیئر کی تو پاکستان نے 166 اوورز میں تین وکٹوں کے نقصان پر 3.5 کی اوسط سے 581 رنز بنائے تھے۔ ظہیر عباس 25 اور جاوید میانداد 280 رنز بناکر وکٹ پر موجود تھے۔

بعض مبصرین کہتے ہیں کہ اگر عمران خان، جاوید میانداد کو 300 رنز بنانے دیتے تو شاید بھارت کی ٹیم تیسرے دن کے اختتام تک 189 پر آؤٹ نہ ہوتی لیکن اگر جاوید میانداد 300 کر لیتے تو ہو سکتا تھا کہ دباؤ کی وجہ سے بھارتی ٹیم اور جلدی آؤٹ ہو جاتی۔

کرکٹ کے حلقوں میں 1983 کا یہ میچ تبصروں اور چہ مگوئیوں کا محور رہا اور 39 سال بعد آج بھی لوگوں کی ہمدردیاں ریکارڈ نہ بنانے والے بلے باز کے ساتھ ہیں، میچ جیتنے والے کپتان کے ساتھ نہیں!

منصور اختر اور رضوان الزمان کی مسلسل سلیکشن سے شائقین کو مایوسی

سن 1980 کی دہائی میں پاکستان کی کرکٹ ٹیم نے عمران خان کی قیادت میں کئی کامیابیاں سمیٹیں لیکن اسی دور میں منصور اختر اور رضوان الزمان جیسے کھلاڑیوں کی سلیکشن کو مبصرین ناقابلِ فہم قرار دیتے تھے۔

مبصرین کہتے ہیں کہ دونوں کھلاڑی ڈومیسٹک کرکٹ میں اچھی کارکردگی دکھا کر ٹیم میں آئے لیکن انٹرنیشنل لیول پر متعدد بار فیل ہونے کے باوجود انہیں منتخب کرنے کی منطق آج بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔

سن 1980 سے 1990 کے درمیان 19 ٹیسٹ اور 41 ون ڈے انٹرنیشنل کھیلنے والے منصور اختر نے ٹیسٹ کرکٹ میں 655 اور ون ڈے کرکٹ میں 593 رنز اسکور کیے۔ ٹیسٹ کرکٹ میں انہوں نے صرف ایک سینچری اسکور کی جب کہ تین بار نصف سینچری کا سنگ میل عبور کیا۔

ون ڈے کرکٹ میں تو نہ انہوں نے کبھی ففٹی بنائی نہ ہی ان کا اسٹرائیک ریٹ اتنا بہتر تھا کہ اس پر انہیں منتخب کیا جاتا۔

سن 1981 سے 1989 کے درمیان پاکستان کی 11 ٹیسٹ اور تین ون ڈے میچز میں نمائندگی کرنے والے رضوان الزمان کا ریکارڈ اس سے بھی زیادہ برا تھا۔

ٹیسٹ کرکٹ میں تین نصف سینچریوں کی مدد سے 345 رنز اور تین ون ڈے میں 20 رنز بنانے کے باوجود وہ 1980 کی دہائی میں ٹیم کے ساتھ رہے۔

وکٹ کیپر وسیم باری کے جانشین کا انتخاب

جس طرح عمران خان کا شمار دنیا کے کامیاب ترین آل راؤنڈرز میں ہوتا ہے، اسی طرح وسیم باری کو پاکستان کا بہترین وکٹ کیپر قرار دیا جاتا ہے۔

عمران خان اور وسیم باری کی جوڑی نے 1971 سے لے کر 1984 کے درمیان متعدد میچز میں پاکستان کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔

اپنے کریئر کے دوران وسیم باری نے انجریز کی وجہ سے کم ہی میچز مِس کیے تھے البتہ جب وہ میچ نہ کھیل سکے تو فرسٹ کلاس کرکٹ کے کامیاب وکٹ کیپرز کو ٹیم میں موقع ملتا رہتا تھا۔

اسی لیے جب 1984 میں وسیم باری کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا جانشین چننے کا وقت آیا تو پاکستان کے پاس ایک نہیں کئی وکٹ کیپر دستیاب تھے۔

وسیم باری کی ریٹائرمنٹ کے چھ سال بعد تک سب سے زیادہ میچز سلیم یوسف نے کھیلے تھے لیکن وہ واحد وکٹ کیپر نہیں تھے جنہیں عمران خان نے آزمایا۔

کپتان نے ٹیسٹ اور ون ڈے انٹرنیشنل میں کل ملا کر نو وکٹ کیپرز کو چانس دیا جن میں چند ایک تو بطور بلے باز ٹیم کے ساتھ تھے۔

وکٹ کے پیچھے چاق چوبند سلیم یوسف نے جہاں پاکستان کے لیے ٹیسٹ اور ون ڈے کھیلے وہیں اشرف علی بھی پیچھے نہیں تھے۔

آسٹریلیا میں کھیلے گئے منی ورلڈ کپ میں اگر انیل دلپت بطور کیپر گئے تھے تو آسٹرل ایشیا کپ میں ذوالقرنین نے وکٹ کیپنگ کے فرائض انجام دیے تھے۔

اسی دوران مسعود اقبال نے پاکستان کے لیے صرف ایک ون ڈے انٹرنیشنل کھیلا جب کہ آل راؤنڈر عامر ملک سے کیپنگ کرانے کا سہرہ بھی عمران خان کے سر جاتا ہے اور تو اور ایک میچ میں سلیم ملک نے بھی بطور کیپر پاکستان کی نمائندگی کی۔

سن 1989 میں جب بھارت نے پاکستان کا دورہ کیا تو ندیم عباسی کے حصے میں تین ٹیسٹ میچ آئے جس کے بعد معین خان کا نمبر آیا اور وکٹ کیپرز کا یہ ’ٹیسٹ‘ ختم ہوا۔

بھارت کے خلاف عبدالقادر کا مسلسل استعمال

بھارت میں پاکستان نے صرف ایک ٹیسٹ سیریز جیتی ہے۔ ٹیسٹ میچ میں یہ واحد کامیابی 1987 میں عمران خان کی قیات میں حاصل ہوئی تھی۔ پاکستان کی ٹیم بنگلور کے مقام پر تاریخی میچ نہ جیت پاتی تو شاید بھارت کی ٹیم سیریز کی فاتح ہوتی۔

اس تاریخی میچ میں پاکستان ٹیم کے دو اسپنرز نے مجموعی طور پر نو نو شکار کیے اور ان دونوں میں سے کسی کا نام عبدالقادر نہیں تھا۔

سیریز میں بھارت کے بلے بازوں نے عبدالقادر کی جادووئی بالنگ کا توڑ نکال لیا تھا اور انہیں تین میچز میں صرف چار وکٹیں حاصل کرنے پر ایک میچ میں ڈراپ بھی کیا گیا تھا۔

سیریز کے پانچویں اور آخری معرکے کے لیے بھی عمران خان، عبدالقادر کو فائنل الیون میں رکھنا چاہتے تھے لیکن نائب کپتان جاوید میانداد کی مداخلت پر انہوں نے لیفٹ آرم اسپنر اقبال قاسم اور آف اسپنر توصیف احمد کو میدان میں اتارا اور انہی دونوں بالرز نے عمران خان کو بھارت کے ہوم گراؤنڈ پرسیریز ہرانے والا پہلا پاکستانی کپتان بنایا۔

آسٹریلیا کے خلاف سیمی فائنل میں شکست

پاکستان اور بھارت میں کھیلا جانے والا 1987 کا کرکٹ ورلڈ کپ وہ پہلا میگا ایونٹ تھا جس کا انعقاد انگلینڈ سے باہر کیا گیا اور جب پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں سیمی فائنل میں پہنچیں تو امکان تھا کہ آسٹریلیا اور انگلینڈ کو باآسانی شکست دے کر یہ دونوں میزبان ٹیمیں فائنل میں آمنے سامنے ہوں گی۔

لیکن پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان ہونے والا پہلا سیمی فائنل میزبان ٹیم کے لیے اچھا نہیں رہا۔

پہلے وکٹ کیپر سلیم یوسف کی انجری کی وجہ سے جاوید میانداد کو آدھے سے زیادہ اوورز میں وکٹ کیپنگ کرنی پڑی اور جب آخری اوور کرانے کی باری آئی تو کپتان کے پاس یا تو سلیم جعفر کے بقایا اوورز تھے یا پھر نان ریگولر بالر سلیم ملک کے۔

عمران خان نے بالرز کے معاملے میں جو سنگین غلطی کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آسٹریلوی آل راؤنڈر اسٹیو وا نے بائیں ہاتھ سے فاسٹ بالنگ کرنے والے سلیم جعفر کے آخری اوور میں 18 رنز اسکور کرکے آسٹریلیا کا اسکور 249 سے 267رنز تک پہنچا دیا۔

جواب میں عمران خان کے پسندیدہ منصور اختر کے فیل ہو جانے اور جاوید میانداد کی تھکاوٹ کے باعث 103 گیندوں پر 70 رنز کی وجہ سے پاکستان ٹیم ہدف کا تعاقب نہ کرسکی اور کریگ مک ڈرمٹ کی بالنگ کے سامنے 249 رنز پر ہی ڈھیر ہوگئی۔

سیمی فائنل میں پاکستان کی شکست کا مارجن 18 رنز ہی رہا ۔ یہ اتنا ہی اسکور تھا جو سلیم جعفر کے کرائے گئے آخری اوور میں بنا تھا۔

  • 16x9 Image

    عمیر علوی

    عمیر علوی 1998 سے شوبز اور اسپورٹس صحافت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کے نامور انگریزی اخبارات اور جرائد میں فلم، ٹی وی ڈراموں اور کتابوں پر ان کے تبصرے شائع ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ متعدد نام وَر ہالی وڈ، بالی وڈ اور پاکستانی اداکاروں کے انٹرویوز بھی کر چکے ہیں۔ عمیر علوی انڈین اور پاکستانی فلم میوزک کے دل دادہ ہیں اور مختلف موضوعات پر کتابیں جمع کرنا ان کا شوق ہے۔

XS
SM
MD
LG