خیبر پختونخوا کی حکومت نے بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی روک تھام کے لیے چائلڈ پروٹیکشن ترمیمی قانون کی منظوری دے دی ہے۔ جس میں بچوں کے خلاف زیادتی یا تشدد کے مرتکب افراد کی تصویر یا ویڈیو سامنے لانے کی شق حذف کر دی گئی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے مذکورہ بل سے ان شقوں کو حذف کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
صوبائی وزیر کامران بنگش کے بقول بچوں کے خلاف جنسی جرائم میں اضافے کے پیشِ نظر اسپیکر صوبائی اسمبلی کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی نے یہ ترامیم تجویز کی تھیں جس پر مزید غور کے لیے کابینہ کمیٹی تشکیل دی گئی۔
بچوں کے حقوق کے لیے سرگرام سماجی کارکن عمران ٹکر کا کہنا ہے کہ بیرونی اداروں کے دباؤ پر ترمیمی بل سے بعض شقوں کو ہٹایا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر قانون فضل شکور خان نے صوبائی کابینہ کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ پاکستان اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا رُکن ہونے کے ناطے بین الاقوامی قوانین کے مطابق ہی قانون سازی کر سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ زیادتی کے مرتکب افراد کی ویڈیو عام کرنے سے پاکستان کو عالمی سطح پر مشکلات کا سامنا ہو سکتا تھا۔
صوبائی وزیر کامران بنگش کا دعویٰ ہے کہ نئی قانون سازی سے بچوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے علاوہ مجرموں کو عبرت کا نشان بنایا جا سکے گا۔
اُن کا کہنا تھا کہ یہ ترمیمی مسودہ جلد خیبر پختونخوا اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
ترمیمی مسودے میں مزید کیا ہے؟
بچوں کے حقوق کو یقینی بنانے کے لیے اس ایکٹ میں مجرمان کے لیے مختلف سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔
بچوں کے خلاف سنگین جرائم میں ملوث افراد کو سزائے موت یا تاحیات عمر قید کی سزا دی جا سکے گی۔
سزاؤں میں کسی قسم کی معافی یا رعایت نہیں ہو گی۔
پھانسی اور عمر قید کے ساتھ جرمانہ بھی عائد ہو گا جو کم از کم 20 لاکھ روپے ہو گا اور اسے 50 لاکھ تک بڑھایا جا سکے گا۔
چائلڈ پورنوگرافی میں ملوث افراد کے لیے 14 برس قید بامشقت اور 50 لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے.
کسی بچے کو ورغلانے، بلیک میل کرنے والوں کے لیے 10 برس تک سزا اور 20 لاکھ تک جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔
بچوں کی اسمگلنگ میں ملوث افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ 25 برس اور کم از کم 14 برس قید با مشقت اور 50 لاکھ روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔
پولیس تحقیقات میں آڈیو، ویڈیو آلات بشمول ڈی این اے بطور ثبوت پیش کرنے کی مجاز ہو گی۔
ان جرائم میں ملوث افراد کا رجسٹر بنایا جائے گا، ان افراد کو نہ ملازمت ملے گی اور نہ ہی وہ پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کر سکیں گے۔
مجرمان کے نام چائلڈ کمیشن کی ویب سائٹ پر موجود ہوں گے، نادرا سے بھی ڈیٹا شیئر ہو گا۔
کسی بھی نجی یا سرکاری ادارے میں ایسے افراد کو ملازمت دینے پر ادارے کے مالک کو پانچ برس قید یا ایک کروڑ روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
اگر کسی ادارے نے ان جرائم کے مرتکب افراد کو ملازمت دی تو ادارے کے سربراہ یا مالک کو وہی سزا جو ایکٹ میں مجرم کے لیے تجویز ہے ملے گی۔
صوبائی اسمبلی کی سب کمیٹیوں نے ضلعی سطح پر چائلڈ یونٹس میں بھرتیوں، بچوں کے لیے ہیلپ لائن کے قیام اور اس کی تشہیر، کمیشن کو گرانٹ کی فراہمی، اسپیشل کورٹ کا قیام، فرانزک لیب اور پوسٹ مارٹم کی سہولیات فراہم کرنے کی بھی سفارش کی ہے۔
سماجی کارکن عمران ٹکر کہتے ہیں کہ حکومت نے عالمی دباؤ پر زیادتی کے مرتکب شخص کی ویڈیو عام کرنے کی شق واپس لے لی ہے۔
عمران ٹکر نے کہا کہ صوبائی حکومت نے کمیٹی کی سفارشات کو مدِنظر رکھتے ہوئے قانون میں سزائیں سخت کر دی ہیں، لیکن بقول ان کے اس کے اسباب روکنے کے لیے کوئی حکمتِ عملی سامنے نہیں آئی۔
انہوں نے کہا کہ اصل بات یہ نہیں کہ قانون آجائے یا قانون میں ترمیم کی جائے بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ قانون پر عمل درآمد ہو۔