پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ہے وہ کبھی بھی ایسی نامعقول بات نہیں کریں گے کہ ریپ کا نشانہ بننے والا ہی اس کا ذمے دار ہے۔ خواتین چاہے جو مرضی پہنیں ریپ کا ذمے دار وہی ہے جو یہ گھناؤنا فعل کرتا ہے۔
منگل کی شب امریکی ٹی وی 'پی بی ایس' کے پروگرام نیوز آور کی میزبان جوڈی وڈرف کو دیے گئے انٹرویو میں میزبان نے استفسار کیا کہ کیا آپ واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں خواتین کے بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کی وجہ خواتین خود ہیں؟ اس پر وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا تھا ان کے بقول ریپ کا نشانہ بننے والا کبھی بھی ذمے دار نہیں ہوتا ہے۔
وزیرِ اعظم عمران خان کے اس بیان کو بعض حلقے اُن کے سابقہ بیانات کی وضاحت قرار دے رہے ہیں جن میں اُنہوں نے کہا تھا کہ خواتین کا مختصر لباس پاکستان جیسے ملک میں فحاشی کا سبب بنتا ہے۔
اُنہوں نے کہا تھا کہ پاکستان جیسے معاشرے میں جب خواتین مختصر لباس پہنیں گی تو مرد روبوٹ نہیں ہیں اس سے ریپ جیسے واقعات بڑھتے ہیں۔
وزیرِ اعظم عمران خان نے انٹرویو کے دوران کہا کہ وہ صرف پاکستانی معاشرے کی بات کر رہے تھے جہاں جنسی زیادتی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہو رہا ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ جنسی جرائم میں صرف ریپ کے واقعات ہی شامل نہیں ہے بلکہ خواتین کے ریپ کے واقعات کی نسبت بچوں کے خلاف زیادتی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ ہو رہا ہے۔
ان کے بقول انہوں نے پردے کا لفظ استعمال کیا تھا اور اسلام میں پردہ صرف لباس کا نام نہیں اور یہ صرف خواتین تک محدود نہیں ہے۔
میزبان نے وزیرِ اعظم عمران خان سے سوال کیا کہ کیا پاکستانی معاشرے میں مذہب کی وجہ سے خواتین کے خلاف ہونے والے تشدد کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنا مشکل ہے؟
جواب میں وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ مغربی معاشروں کے مقابلے میں پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک میں خواتین کو زیادہ عزت و احترام دیا جاتا ہے۔
'امریکہ نے افغانستان میں سب کچھ گڑ بڑ کر دیا'
افغانستان کی صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے عمران خان نے الزام لگایا کہ امریکہ نے افغانستان میں سب کچھ گڑبڑ کر دیا ہے اب جب کہ امریکہ مذاکرات کے ذریعے مسئلے کا حل چاہتا ہے اور فوجی انخلا کر رہا ہے تو اسے طالبان اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔
عمران خان نے کہا کہ "جب مجھ جیسے لوگ افغانستان میں امریکہ کی فوجی مداخلت کی مخالفت کرتے تھے تو مجھے امریکہ مخالف اور طالبان خان کہا جاتا تھا۔"
اُن کے بقول جب افغانستان میں ڈیڑھ لاکھ نیٹو اور امریکی فوجی موجود تھے، اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوتے تو فائدہ تھا۔ لیکن جب امریکہ نے افغانستان سے انخلا کا اعلان کیا اور اس وقت نیٹو اور امریکہ کے صرف 10 ہزار فوجی تھے تو اسے طالبان نے اپنی کامیابی کے طور پر دیکھا۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ اب طالبان کو سیاسی تصفیے یا مذاکرات کے لیے رضا مند کرنا بہت مشکل ہے کیوں کہ اب وہ سمجھتے ہیں کہ وہ جیت چکے ہیں۔
افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی سے متعلق پوچھے گئے سوال پر عمران خان کا کہنا تھا کہ افغان تنازع کا واحد حل سیاسی تصفیہ ہے جس کے تحت بننے والی حکومت میں تمام فریقوں بشمول طالبان کی بھی نمائندگی ہو۔