پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی ہدایت پر وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے نے پشاور بس منصوبے میں تحقیات شروع کر دی ہے جبکہ صوبائی حکومت نے تحقیقات کو روکنے کیلئے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے کے عہدیداروں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ دو افسران کی قیادت میں پشاور بس منصوبے کے بار ے میں تحقیات شروع ہیں اور اس سلسلے میں پشاور ترقیاتی ادارے پی ڈی اے حکام سے اس منصوبے کے بارے میں اہم دستاویزات حاصل کی گئی ہیں۔ تاہم سابق صوبائی وزیر اور بس منصوبے کے خلاف پشاور کے سماجی اور سیاسی حلقوں کے قائم کردہ قومی جرگہ کے سربراہ مولانا امان اللہ حقانی کا کہنا ہے کہ پی ڈی اے کے حکام بس منصوبے میں جاری تحقیقات میں صوبائی حکومت کے ایماء پر تعاون فراہم نہیں کر رہے ہیں۔
مولانا امان اللہ نے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کے بارے میں کہا کہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ موجودہ حکومت کرپشن کے خاتمے میں کتنی مخلص ہے۔ اس منصوبے میں ہونے والی بدعنوانی پر پردہ ڈالنے یا بدعنوانی کو چھپانے کیلئے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنا پاکستان تحریک انصاف کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنا ہے۔
پشاور میں کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ کے مشیر اطلاعات اجمل وزیر نے کہا کہ بس منصوبے کے سلسلے میں صوبائی حکومت ہر قسم کی تحقیقات کیلئے تیار ہے مگر تحقیقات کے نتیجے میں یہ منصوبہ مزید تاخیر کا شکار ہو گا۔ اُنہوں نے دعوٰی کیا کہ منصوبے کے کوریڈور پر زیادہ تر کام مکمل ہو چکا ہے اور باقی کام آئندہ تین چار مہینوں میں مکمل ہو جائے گا۔
سابق وزیرا علیٰ پرویز خٹک نے لگ بھگ 49 ارب روپے کے ابتدائی خرچ سے پشاور بس منصوبے کا افتتاح اکتوبر 2007 میں کرتے وقت اسے چھ مہینوں میں مکمل کرنے کا دعوٰی کیا تھا تاہم ابھی تک یہ منصوبہ زیر تعمیر ہے جبکہ ماہرین اور سیاسی رہنماؤں کے بقول اب اس منصوبے کے اخراجات سو ارب تک پہنچ چکے ہیں۔ منصوبے کے تعمیر سے پشاور کے تجارتی اور کاروباری حلقے شدید متاثر ہوئے ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ نے 5 دسمبر کو وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کو بس منصوبے میں ہونے والی مبینہ بدعنوانی کے بارے میں تحقیقات کرنے اور 45 دن کے اندر رپورٹ جمع کرنے کی ہدایت کی ہے۔