رسائی کے لنکس

پشتون تحفظ تحریک کے رہنماؤں کی سیکورٹی میں اضافہ


پشتون تحفط موومنٹ کے رہنماؤں کی سینیٹ کمیٹی کے ارکان کے ساتھ گروپ فوٹو۔ سینیٹ کمیٹی نے پی ٹی ایم سے ان کے مطالبات پر بات کی تھی۔ اپریل 2019
پشتون تحفط موومنٹ کے رہنماؤں کی سینیٹ کمیٹی کے ارکان کے ساتھ گروپ فوٹو۔ سینیٹ کمیٹی نے پی ٹی ایم سے ان کے مطالبات پر بات کی تھی۔ اپریل 2019

خیبر پختونخوا پولیس نے پختون تحفظ تحریک کے رہنماؤں کو درپیش سیکورٹی خطرات کے پیش نظر ان کی سیکورٹی بڑھا دی ہے۔ ایک روز قبل پی ٹی ایم کے متعدد رہنماؤں کو حملوں کے خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے محتاط رہنے اور اپنی سرگرمیاں محدود کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

صوبے کے جنوبی اضلاع ڈیرہ اسماعیل خان، جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان کی ضلعی اور علاقائی پولیس نے قومی اسمبلی کے دو ارکان سمیت پی ٹی ایم کے کئی سرکردہ رہنماؤں کی زندگیوں کو درپیش مبینہ خطرات کے متعلق اعلامیے جاری کیے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان کی جانب سے ان رہنماؤں کی زندگیوں کو خطرہ ہے۔

چند روز قبل سابق فوجی عہدیدار اور تجزیہ کار بریگیڈیر ( ریٹائرڈ) محمود شاہ نے پشتون تحفظ تحریک اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان کو ایک دوسرے کا اتحادی قرار دیتے ہوئے ان پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے شمالی اور جنوبی وزیرستان کے بعض علاقوں میں لوگوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے دھمکی آمیز پمفلٹ تقسیم کیے تھے جن میں لڑکیوں کو سکول نہ بھیجنے کے لیے بھی کہا گیا تھا۔ تاہم، شمالی وزیرستان سے ممبر قومی اسمبلی محسن داوڑ نے اس الزام کو مسترد کر دیا تھا۔

پشتون تحفظ تحریک کے رہنما عبداللہ ننگیال نے حکومت کی طرف سے محتاط رہنے کے مشورے ملنے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ عجیب بات یہ ہے کہ ایک طرف انہیں طالبان کے ساتھی قرار دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف انہی کی جانب سے خطرات اور حملوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے۔

اُنہوں نے کہا کہ ان کا کسی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ وہ صرف ریاستی اداروں کی غلط پالیسی کے خلاف پر امن جدوجہد کر رہے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ اس تحریک سے ریاست ہی کو پریشانی ہے۔

بنوں کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس عبداللہ خان نے وائس آف امریکہ کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ دھمکیوں اور حملوں کی پیشگی اطلاعات ملتے کے بعد شمالی وزیرستان کی پولیس کے عہدے داروں کے ذریعے محسن داوڑ سے رابط کیا گیا ہے اور انہیں آٹھ محافظ فراہم کر دیے گئے ہیں۔

اُنہوں نے کہا کہ پشتون تحفظ تحریک کے زیادہ تر رہنما اسلام آباد میں ہوتے ہیں۔ تاہم، محسن داوڑ کے ذریعے انہیں بھی محتاط رہنے کے پیغامات بھجوا دیے گئے ہیں۔

جنوری 2018 میں کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللہ محسود کے قتل کے خلاف احتجاج کے دوران قائم ہونے والے گروپ پشتون تحفظ تحریک کی تمام تر سرگرمیاں، احتجاجی مظاہرے اور جلسے پرامن رہے ہیں اور ابھی تک اس تنظیم کے کسی بھی رہنما یا کارکن پر کسی قسم کا حملہ نہیں ہوا ہے۔

تاہم، پچھلے سال ماہ رمضان میں وانا میں حکومت نواز شدت پسندوں کے امن لشکر میں شامل مسلح افراد نے ممبر قومی اسمبلی علی وزیر کے گھر اور حجرے پر حملے کیے تھے جس میں دونوں جانب سے دو افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔

XS
SM
MD
LG