خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے پہلے انتخابات کے نتائج سامنے آ چکے ہیں۔ جس کے مطابق چھ آزاد اميدوار، پانچ پاکستان تحريک انصاف، تین جمعيت علما اسلام (ف) جب کہ عوامی نيشنل پارٹی اور جماعت اسلامی نے ايک، ايک نشست پر کامیابی حاصل کی۔
ان انتخابات میں دو خواتین امیدوار بھی انتخابات میں حصہ لے رہی تھیں لیکن وہ دونوں کامیاب نہ ہو سکیں۔ قبائلی علاقوں میں رجسٹرڈ خواتین ووٹرز کی تعداد 11 لاکھ سے زائد ہے۔
عوامی نینشل پارٹی کے ٹکٹ پر خیبر ایجنسی سے الیکشن میں حصہ لینے والی خاتون امیدوار ناہید آفريدی اور جماعتِ اسلامی کے ٹکٹ پر کرم ایجنسی سے الیکشن لڑنے والی مالسہ بی بی کو بہت کم ووٹ ملے۔
الیکشن کمشن کے مطابق ناہید آفريدی کو 194 جبکہ مالسہ بی بی کے حصے ميں محض 17 ووٹ آئے۔
اتنے کم ووٹ . . .
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے ناہيد آفريدی نے بتايا کہ اتنے کم ووٹ ملنے پر وہ بہت حیران ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘انتخابی مہم کے دوران ميں گھر گھر گئی۔ عورتوں کے ساتھ ساتھ مردوں نے بھی مجھے ووٹ دينے کی يقين دہانی کرائی تھی۔’
قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والی خاتون امیدوار ناہید آفریدی کا کہنا ہے کہ ووٹ کم پڑنے کی بڑی وجہ مجموعی ٹرن آؤٹ میں کمی بھی ہے۔
واضح رہے کہ 20 جولائی کو قبائلی علاقوں میں ہونے والے انتخابات میں مجموعی ٹرن آؤٹ 25 فیصد رہا۔
ناہید آفریدی کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں کے الگ مسائل ہوتے ہيں اور یہاں ملک کے دوسرے حصوں کی نسبت عورتيں مردوں کے زيادہ زير اثر ہوتی ہيں۔
اُن کے مطابق انتخابات میں پيسے کا بھی زيادہ عمل دخل ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ قبائلی اضلاع میں 16 نشستوں پر ہونے والے انتخابات میں زیادہ تر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے ہیں۔
آزاد اميدواروں کی کاميابی پر تبصرہ کرتے ہوئے ناہيد آفريدی نے بتايا کہ یہاں اس سے پہلے کبھی سیاسی جماعتوں کی بنياد پر اليکشن نہیں ہوئے تھے اور یہاں شخصیت پرستی بہت زيادہ ہے۔
انھوں نے کہا 'میں خوش قسمت ہوں کیونکہ میں نے ايسے علاقوں ميں بھی مہم چلائی جہاں عورتوں کا اس طرح سے آزاد گھومنا کسی بھی خطرے سے خالی نہ تھا۔'
خواتين کے حقوق پر کام کرنے والی سماجی کارکن شاد بيگم کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقوں میں خواتین کا سیاسی سرگرمیوں میں بھرپور شمولیت کے لیے ماحول ابھی تسلی بخش نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ قبائلی علاقوں میں عرصہ دراز سے سیاسی گہما گہمی کی کمی ہے۔ دوسری جانب موجودہ انتخابات میں ہمیشہ کی طرح سیاسی جماعتوں نے محض دکھاوے کے لیے خواتین امیدواروں کو نامزد کیا تھا۔ ان کی خاطر خواہ مدد نہیں کی۔ خواتین امیدواروں نے اپنے بل بوتے پر مہم چلائی۔
وائس آف امريکہ سے بات کرتے ہوئے شاد بيگم نے مزید کہا ک وہ ناہید آفریدی اور مالسہ بی بی کو مبار ک باد دیتی ہيں کہ انہوں نے ہمت اور جرات کا مظاہرہ کیا۔
انہوں نے دونوں امیدواروں کو قبائلی علاقوں کی خواتین کے لیے سیاسی میدان میں مثال قرار دیا۔
قبائلی اضلاع اور خواتین کو حق رائے دہی
ملکی تاريخ ميں 50 سال تک بالغ حق رائے دہی سے محروم قبائلی خواتين کو 1997 ميں پہلی مرتبہ ووٹ ڈالنے کا حق ديا گيا۔
2013 کے انتخابات میں بادام زری نے قبائلی روايات کو توڑتے ہوئے پہلی بار قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا تھا۔
اگرچہ ناہيد آفريدی کو ان کی توقعات سے بہت کم ووٹ پڑے مگر وہ پھر بھی پرعزم ہيں کہ وہ مستقبل کے جمہوری عمل ميں ضرور حصہ ليں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس 'اسٹيٹس کو' کو توڑنا بہت ضروری تھا۔