پاکستان کے صوبۂ خیبرپختونخوا کے قبائلی اضلاع کے صوبے میں انضمام کے باوجود سرکاری تعلیمی اداروں کا نظام بحال نہیں ہو سکا ہے۔ قبائلی اضلاع میں قائم پانچ ہزار 522 اسکولوں میں سے اب بھی 400 سے زائد اسکولوں میں تعلیمی سرگرمیاں بحال نہیں ہوئی ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ انضمام کے بعد کیے گئے سروے کے مطابق 24 اسکولوں کو مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
غیر فعال اسکولوں میں ماضی میں مقامی قبائلی رہنماؤں یا بااثر افراد کے حجروں میں تعمیر کیے گئے اسکولوں کے علاوہ وہ تعلیمی ادارے بھی شامل ہیں جو ماضی میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور دہشت گردوں کے خلاف ہونے والی فوجی کارروائیوں کے دوران تباہ ہوئے تھے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سب سے زیادہ غیر فعال اسکول شمالی اور جنوبی وزیرستان میں ہیں جن کی مجموعی تعداد 119 ہے جب کہ دوسرے نمبر پر ضلع اورکزئی ہے جہاں پر غیر فعال اسکولوں کی تعداد 61 ہے۔
ضلع کرم میں 38 اور ضلع خیبر میں 36 اسکول اب تک بحال نہیں ہو سکے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق مختلف قبائلی اضلاع میں متعدد اسکولوں کی عمارتوں میں پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں کی چوکیاں بھی قائم ہیں۔
جنوبی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر شوکت علی خان نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں تصدیق کی ہے کہ 11 اسکولوں کی عمارتوں میں پولیس کے تھانے اور چوکیاں قائم ہیں۔
اُنہوں نے کہا کہ ابھی ضلع کے مختلف علاقوں میں پولیس کے پانچ تھانوں اور چوکیوں کی تعمیر آخری مراحل میں ہے۔ تعمیر مکمل ہوتے ہی اسکولوں کی عمارتیں محکمۂ تعلیم کے حوالے کر دی جائیں گی۔
شوکت علی خان کے مطابق ان میں سے پانچ اسکول مقامی قبائلی رہنماؤں یا دیگر بااثر افراد نے حجروں میں تبدیل کیے تھے۔
باجوڑ کے ضلعی تعلیمی افسر نے وائس آف امریکہ کو بتایا ہے کہ سیکیورٹی فورسز اور پولیس کے زیرِ استعمال تمام اسکول واگزار کرائے جا چکے ہیں۔
ضلع خیبر سے حکمران جماعت کے ممبر صوبائی اسمبلی شفیق آفریدی نے کہا ہے کہ کئی اسکول سابقہ ادوار میں پولیٹیکل انتظامیہ اور بااثر افراد کی خوشنودی کے لیے سرکاری اخراجات سے تعمیر کیے گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ انضمام کے بعد موجودہ حکومت نے باقاعدہ سروے کر کے یا تو ان اسکولوں کو واگزار کر لیا یا انہیں غیر فعال قرار دیا گیا ہے۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ بعض اسکولوں کو مکمل طور پر بند کرنے کا بھی فیصلہ ہوا ہے۔
شفیق آفریدی نے کہا کہ اب صوبائی حکومت نے قبائلی اضلاع میں معیاری تعلیم کو فروع دینے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس سلسلے میں نہ صرف اسکولوں کی تعمیر بلکہ ان اسکولوں میں قابل اور تجربہ کار اساتذہ کی تعیناتی بھی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سیاسی کارکن امین وزیر نے قبائلی اضلاع میں اسکولوں اور تعلیمی نظام پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت اس سلسلے میں ذمہ داریاں پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔
تاہم امین وزیر نے بھی شفیق آفریدی کی اس بات سے اتفاق کیا کہ ان اسکولوں کو ماضی میں بااثر افراد کی خوشنودی کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
سرکاری اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ دہشت گردی اور فوجی کارروائیوں کے بعد قبائلی اضلاع میں 436 اسکولوں کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے۔ ان اسکولوں میں 247 اسکول امریکہ کے ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی اور باقی دیگر غیر ملکی اداروں کے تعاون سے تعمیر کیے گئے ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب قبائلی اضلاع میں 75 اسکولوں کی تعمیر کا کام باقی ہے جس پر لگ بھگ ڈیڑھ ارب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔