پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں قوت سماعت و گویائی سے محروم بچوں کی تعلیم و تربیت سے متعلق دستیاب وسائل کی کمی کا ذکر کرتے ہوئے اس شعبے سے وابستہ افراد نے حکومت سے مناسب اقدام کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
کوئٹہ میں قائم بلوچستان ڈس ایبل پرسن کمپلیکس فار اسپیشل ایجوکیشن کی ایک استاد زرتاشہ جبین کہتی ہیں کہ گونگے اور بہرے بچوں پر فوری اور خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے جب کہ صوبے میں ایسے بچوں کی شرح کے مقابلے میں ان کی تعلیم و تربیت سے متعلق دستیاب وسائل کم ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ہر سال کئی ایسے بچے اسکول میں داخلہ لیتے ہیں لیکن ان سب کو ایک ساتھ ایک ہی دن اسکول میں بٹھا کر تعلیم نہیں دی جاسکتی۔ ان کے بقول اس کی وجہ کمروں کی کمی اور دیگر انتظامات ہیں۔
"یہاں پر بچوں کو پڑھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کے لیے ہمیں آلات کی ضرورت ہے اگر یہ آلات ہمیں مل جائیں تو ہم اساتذہ ان بچوں کو زیادہ اچھا پڑھا سکتے ہیں، ان کے سیکھنے کی صلاحیت بہتر ہو سکتی ہے۔ جیسے کہ ہمارے پاس ایف ایم سسٹم نہیں ہے کچھ آلات ہیں جیسا کہ اسپیچ ٹرینر ہونا چاہیے وہ استعمال کرتے ہوئے ہم زیادہ بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔"
انھوں نے بتایا کہ اس ضمن میں بین الاقوامی خیراتی اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
ایک اندازے کے مطابق قدرتی وسائل سے مالامال لیکن ملک کے اس پسماندہ ترین صوبے میں گونگے اور بہرے بچوں کی تعداد دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہے جس کی وجہ بعض مبصرین کے بقول خاص طور پر بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں صحت کی مناسب سہولتوں کا نا ہونا ہے۔
صوبائی حکومت نے گونگے اور بہرے بچوں کو معاشرے کا حصہ بنانے کے لئے "ڈیف اینڈ ڈمب" اسکول قائم کیا ہے جس میں فی الوقت 250 بچے زیر تعلیم ہیں۔ اسکول کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ ہر سال کئی دیگر گونکے اوربہرے بچوں کواسکول میں جگہ نہ ہونے کے باعث داخلہ نہیں دیا جاتا۔
سماجی بہبود کے صوبائی محکمے کی ڈائریکٹر زینت درانی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ایسے بچوں کے لیے سہولتوں کی کمی سے تو اتفاق کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ حکومت نہ صرف ان بچوں کے لیے نئے اسکول کھول رہی ہے بلکہ ان کی تعلیم کے لیے درکار خصوصی آلات کا بھی انتظام کیا جا رہا ہے۔
انھوں نے بھی اس ضمن میں مخیر حضرات اور بین الاقوامی امدادی اداروں سے معاونت کی درخواست کی۔
زرتاشہ جبین کا کہنا ہے کہ اسکول سے تر بیت پانے والے کئی بچے اب دوسرے عام لوگوں کی طرح بات کرتے اور زندگی کے معمولات کو آگے بڑھاتے ہیں۔انہوں نے گونگے اور بہر ے بچوں کے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچے کی اس کمزور ی کو نظر انداز نہ کر یں بلکہ فوری طور اُن کے اسکول یا نا ک، کان اور گلے کے ماہر ڈاکٹر سے مشورہ کریں۔