لاہور ہائی کورٹ نے صوبائی حکومت کو حکم دیا ہے کہ مذہبی جماعت تحریکِ لیبک کے زیر حراست کارکنوں کی درخواستوں پر جلد فیصلہ کریں۔
لاہور ہائی کورٹ میں تحریک لبیک پاکستان کے کارکنوں کی گرفتاری کے خلاف دائر درخواست پر سماعت جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کی۔
جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے محکمہ داخلہ پنجاب سے استفسار کیا کہ اِس وقت کتنے لوگ زیر حراست ہیں؟ جس پر ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ داخلہ پنجاب فضیل اصغر نے عدالت کو بتایا کہ آسیہ مسیح کی رہائی کے خلاف ہونے والے مظاہروں اور توڑ پھوڑ کرنے والے تین ہزار سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا تھا۔ جن کی اکثریت کو بعد میں رہا کر دیا گیا۔
انھوں نے عدالت کو بتایا کہ اِس وقت 622 افراد نقص امن میں خلل ڈالنے کے باعث نظر بند ہیں۔
انھوں نے کہا کہ نظربندی کے خلاف درخواست گزار ہوم ڈیپارٹمنٹ سے رجوع کر سکتا ہے لیکن بہت سے لوگوں نے ہوم ڈیپارٹمنٹ میں تو نظربندی کے خلاف درخواست ہی نہیں دی۔
جس پر جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے کہا کہ یہ لوگوں کی آزادی کا معاملہ ہے۔ عدالت نے محکمہ داخلہ پنجاب کو تین دن میں تحریک لبیک کے کارکنوں کی نظربندی کے خلاف درخواستوں کا فیصلہ کرنے کی ہدایت کی ہے۔
تحریک لبیک کے کارکنوں کے بارے میں درخواست رائے صلاح الدین نے دائر کی تھی۔ وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ حکومت کی زیادتی ہے اور ایسے لوگوں کو پکڑا ہوا ہے جو بے گناہ ہیں۔
رائے صلاح الدین نے کہا کہ ’حکومت اور قانون کو ہم یہی عرض کرتے ہیں کہ عدالتوں کو بند کر دیں۔ اگر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہ ہو تو اُسے نظر بند کیا تاکہ اُس کے خلاف عدالت میں کوئی کیس نہ چلے۔‘
پاکستان مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کہتے ہیں کہ تحریک لبیک پاکستان کے وہ کارکن جنہوں نے قانون ہاتھ میں لیا، توڑ پھوڑ کی یا جلاؤ گھیراؤ کیا انہیں سزا ملنی چاہیئے۔
وائس آف امریکہ سے بات چیت میں انھوں نے کہا کہ اگر کسی کو نظر بند کیا ہے تو قانون کے مطابق اس کی نظر بندی میں توسیع کرے یا اُسے رہا کرے۔
ملک احمد خان کا کہنا ہے کہ ’اگر ان کو بے قابو چھوڑا جائے تو پورے ملک کے اندر ایک کمزور سی فضا بن جاتی ہے لیکن اگر ایسے عناصر کے خلاف وقت پر ایکشن لیا جائے تو کیونکہ یہ مذہب کی بنیاد پر عام آدمی کو بھی سڑکوں پر لے آتے ہیں۔‘
آسیہ بی بی کی بریت پر مظاہرے، حکومتی کریک ڈاؤان
ڈپٹی کمشنر لاہور صالحہ سعید نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ضلع لاہور میں آسیہ بی بی رہائی کے خلاف مظاہرہ کرنے والے دو ہزار سے زائد افراد کو نقص امن کے سبب حراست میں لیا گیا تھا۔ جن میں سے بیشتر کو چند دنوں بعد تین مختلف درجوں میں رہا کر دیا گیا جبکہ ہزار سے زائد افراد کو سولہ ایم پی او کے تحت تیس دن کے لیے نظر بند کیا گیا تھا۔ جن کی توسیع بعد ازاں محکمہ داخلہ پنجاب نے کی تھی۔
آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے الزام میں صوبہ پنجاب کے ضلع شیخوپورہ کی مقامی عدالت نے سنہ دو ہزار دس میں سزائے موت سنائی تھی لیکن سپریم کورٹ نے گذشتہ اکتوبر میں آسیہ بی بی کو تمام الزامات سے بری کرتے ہوئے رہائی کا حکم دیا تھا۔
آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف تحریک لبیک نے ملک بھر میں ہنگامے اور دھرنا دیا تھا۔ حکومت نے تحریک لبیک کے خلاف کریک ڈؤان کرتے ہوئے پچیس سو سے زائد افراد کو گرفتار کرکے مقدمات درج کئے تھے۔
تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ خادم حسیں رضوی سمیت دیگر مرکزی قیادت اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر ہے جن کے خلاف انسداد دہشت گردی کی عدالت میں کیس زیر سماعت ہیں۔