لاہور ہائی کورٹ نے توہینِ مذہب کے الزامات پر پھانسی کی سزا پانے والے سات برس سے قید مسیحی جوڑے کی سزا پر عمل درآمد روکتے ہوئے دونوں کو بری کرنے کا حکم دیا ہے۔
پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والے شفقت ایمینوئل اور شگفتہ کوثر کے خلاف 2013 میں توہینِ مذہب کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ بعدازاں مقامی عدالت نے اُنہیں سزائے موت دینے کا حکم دیا تھا۔
جمعرات کو کیس کی سماعت عدالتِ عالیہ لاہور کے جج جسٹس سید شہباز علی رضوی اور جسٹس طارق سلیم شیخ پر مشتمل دو رکنی بینچ نے کی۔
فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے ماتحت عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دونوں ملزمان کو بری کرنے کا حکم دیا۔
عدالت میں مسیحی جوڑے شفقت ایمینوئل اور شگفتہ کوثر کے وکیل سیف الملوک کے مطابق لاہور ہائی کورٹ میں ملزمان کو پھانسی کی سزا دینے کے خلاف کیس کی سماعت گزشتہ تین روز سے جاری تھی، جس پر جمعرات کو عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے اُن کی درخواست منظور کر لی ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے سیف الملوک نے بتایا کہ دورانِ سماعت استغاثہ کے وکلا کوئی ایسی شہادت یا دستاویز عدالت میں پیش نہیں کر سکے جس سے ملزمان جرم کے مرتکب پائے جائیں۔ اُنہوں نے مزید کہا کہ عدالتی کارروائی میں وکیل استغاثہ کی جانب سے پیش کیے جانے والے گواہ بھی عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔
سیف الملوک کے مطابق جو فون اور پیغامات عدالت میں پیش کیے گئے تھے، اُن کا تعلق ملزمان سے ثابت نہیں ہو سکا۔
وکیل استغاثہ غلام مصطفٰی نے وائس آف امریکہ سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ عدالت کے تفصیلی فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں۔ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد وہ مشاورت سے اِس کیس کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔
مسیحی جوڑے کو صوبۂ پنجاب کے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کی سیشن عدالت کے جج نے چار اپریل کو توہینِ مذہب کے الزام میں پھانسی کی سزا دی تھی۔
مسیحی جوڑے پر الزام تھا کہ اُنہوں نے ایک مقامی مسجد کے امام محمد حسین کے موبائل فون پر بھیجے جانے والے پیغامات میں توہینِ مذہب کی تھی۔
امام مسجد کی شکایت پر 2013 میں پولیس نے 38 سالہ شفقت اور اس کی 42 سالہ بیوی شگفتہ کوثر کو حراست میں لے کر مقدمہ درج کر لیا تھا۔
دونوں ملزمان کو توہینِ مذہب کے قانون کی شق295 سی کے تحت موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
اطلاعات کے مطابق شفقت ایمینوئل معذور ہیں اور اِس وقت فیصل آباد کی جیل میں جب کہ اِن کی اہلیہ شگفتہ کوثر ملتان کی جیل میں قید ہیں، ان کے تین بچے ہیں۔
عدالتیں شواہد دیکھ کر فیصلے کرتی ہیں، حافظ طاہر اشرفی
وزیرِ اعظم پاکستان کے نمائندہ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی اور مشرقِ وسطٰی حافظ طاہر محمود اشرفی سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی چھوٹی اور بڑی عدالتیں دستیاب شواہد کی بنا پر مقدمات کے فیصلے کرتی ہیں۔
اُن کے بقول عدالتوں کو یہ حق ہے کہ جو وہ مناسب سمجھیں، انصاف کے تقاضوں کو پورا کریں اور قانون کے مطابق فیصلے کریں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا کہ پاکستان میں گزشتہ چند ماہ سے توہینِ مذہب کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ اُن کے بقول گزشتہ سات ماہ سے کوئی ایک نیا کیس سامنے نہیں آیا، جس میں کہا جا سکے کہ بغیر شواہد کے کوئی چیز سامنے آئی ہے۔
طاہر محمود اشرفی کے بقول توہینِ مذہب کے قوانین کے غلط استعمال کو اِس انداز میں روکا گیا ہے کہ کوئی بھی فرد یا کوئی بھی قوت اِن قوانین کا غلط استعمال کرے گی تو حکومت اُسے روکے گی۔
یورپی پارلیمنٹ میں مذکورہ مسیحی جوڑے کا تذکرہ
خیال رہے روں سال یکم مئی 2021 کو یورپی پارلیمنٹ میں پاکستان کے ساتھ تجارتی تعلقات پر نظرِ ثانی کرنے اور اس کو خصوصی تجارتی مراعات کے لیے حاصل 'جی ایس پی پلس' کا درجہ ختم کرنے کے حوالے سے ایک قرار داد منظور کی گئی تھی۔
قرارداد میں پاکستان میں توہینِ مذہب کے قانون کے مبینہ طور پر غلط استعمال کا حوالہ دیتے ہوئے شفقت اور شگفتہ کوثر کے کیس کا بھی ذکر کیا گیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی رواں برس اپریل میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی جیل میں قید توہینِ مذہب کے قیدی شفقت کی صحت بگڑ رہی ہے اور وہ کسی سہارے کے بغیر چل پھر نہیں سکتے۔