اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے پیر کو لال مسجد کے سابق خطیب عبدالعزیز کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ اور بحفاظت عدالت میں پیشی سے متعلق درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز نے پیر کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت میں دو مقدمات میں ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواستیں بھی دائر کی تھیں جن کی سماعت ابھی ہونا ہے۔ ان کے خلاف 2014 میں دو مقدمات درج کیے گئے تھے جن میں انہیں اب تک گرفتار نہیں کیا گیا۔
عبدالعزیز کے وکیل طارق اسد نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ پیر کو انہوں نے عدالت میں حاضری سے استثنیٰ اور بحفاظت عدالت میں اپنی پیشی سے متعلق درخواستیں دائر کی تھیں مگر وہ دونوں عدالت نے منظور نہیں کیں۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے تحت ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست کی سماعت کے لیے ملزم کا عدالت میں موجود ہونا ضروری ہے جس کے باعث یہ درخواست منظور نہیں کی گئی۔’’ضمانت کی درخواستیں ابھی زیر التوا ہیں اور کورٹ نے ہدایت دی ہے (آبپارہ) کے ایس ایچ او کو کہ اگر انہیں قانونی طور پر گرفتار نہیں کیا گیا تو اس صورت میں وہ رپورٹ پیش کریں۔ اگر وہ کسی تحویل میں نہیں ہیں اس کیس میں یا کسی کیس میں تو انہیں کل عدالت میں پیش کیا جائے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’’عدالت میں پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری ضمانت کی درخواستوں پر سماعت ہو گی۔‘‘
طارق اسد نے عدالت میں اپنے دلائل میں کہا تھا کہ جامع حفصہ کے باہر پولیس اور رینجرز کی بھاری نفری تعینات ہے جس کے باعث عبدالعزیز عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔
2014 میں آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد مولانا عبدالعزیز نے حملے کی مذمت سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد شہریوں نے لال مسجد کے باہر مظاہرے کیے تھے۔
ان مظاہروں میں سرگرم کارکن جبران ناصر پیش پیش تھے۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ مظاہرین کو لال مسجد کی انتظامیہ اور خود عبدالعزیز کی طرف سے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئیں جس کے بعد ان کے خلاف تعزیرات پاکستان کی شق 506 (B) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
دوسرے مقدمے میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے نفرت انگیز تقاریر کیں۔
’’یہ بات کر رہے ہیں مسلکوں کے خلاف، طبقوں کے خلاف، مذاہب کے خلاف۔ یہ پورے پاکستان کی سکیورٹی کا مسئلہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کورٹ کیا کرے گی۔ کورٹ نے اچھا کیا اور کہا کہ اگر آپ نے ضمانت لینی ہے تو خود کورٹ میں آ کر موجود ہوں۔ ایسے بغیر حاضری کے ضمانت نہیں ہو سکتی۔‘‘
مولانا عزیز کی گرفتاری کا مطالبہ ایسے وقت سامنے آیا جب پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پاکستان کے وزیر داخلہ کے سینیٹ میں دیے گئے اس بیان پر تحریک استحقاق پیش کی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف کوئی مقدمہ زیر التوا نہیں۔
مگر فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے 11 ماہ قبل مولانا عبدالعزیز کی گرفتاری کے لیے جاری کیے گئے وارنٹ دکھائے، جس پر ابھی تک عملدرآمد نہیں کیا گیا تھا۔
گزشتہ ہفتے عبدالعزیز کے خلاف آبپارہ تھانے میں دو مزید درخواستیں جمع کرائی گئیں۔ ایک درخواست میں شیعہ مسلک کے خلاف نفرت انگریز تقاریر کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے جبکہ دوسری درخواست میں ان پر الزام ہے کہ انہوں نے عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم داعش سے وفاداری کی حمایت کی ہے۔
لال مسجد کے ترجمان کی طرف سے مولانا عزیز پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی گئی تھی جب کہ پولیس نے ابھی تک ان درخواستوں پر مقدمہ درج نہیں کیا۔