ہر سال دنیا بھر میں آسمانی بجلی گرنے سے عمارتوں، مواصلاتی نظاموں، بجلی کی لائنوں اور بجلی کے آلات کو سالانہ اربوں ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے جب کہ اس کی زد میں آ کر ہزاروں افراد بھی ہلاک ہو جاتے ہیں۔
سائنس دان آسمانی بجلی کو گرنے سے روکنے کے لیے صدیوں سے کوششیں کر رہے ہیں۔ حال ہی میں اس مقصد کے لیے لیزر کا کامیاب تجربہ کیا گیا ہے جس کی شعاعیں بادلوں سے زمین کی جانب لپکنے والے برقی کوندے کا رخ دوسری جانب موڑ دیتی ہیں۔
اس وقت اونچی عمارتوں کو آسمانی بجلی سے بچانے کا طریقہ یہ ہے عمارت کی چوٹی پر ایک دھاتی پلیٹ لگا کر اسے تار کے ذریعے زمین سے جوڑ دیا جاتا ہے جس سے بجلی کوئی نقصان پہنچائے بغیر پلیٹ کے راستے زمین میں چلی جاتی ہے۔ اس طریقے کے موجد ایک امریکی ماہر طبعیات بنجمن فرینکلن تھے جنہوں نے یہ دریافت 1750 کے عشرے میں آسمان پر بجلی چمکنے کے دوران دھاتی تار سے بندھی ایک پتنگ اڑا کر کی تھی۔
'آسمانی بجلی اونچی جگہ پر گرتی ہے'
آج بھی آپ کو ان علاقوں میں جہاں بجلی گرنے کے زیادہ واقعات ہوتے ہیں۔ اونچی عمارتوں کی چوٹیوں پر نصب دھاتی پلیٹ ضرور دیکھی ہو گی۔ اسے عمارت کو ارتھ کرنا بھی کہا جاتا ہے۔
یہ یاد رہے کہ آسمانی بجلی ہمیشہ اونچی جگہوں پر گرتی ہے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اگر آپ کسی کھلے میدان میں ہوں اور آسمان پر بجلی کڑک رہی ہو تو بارش سے بچنے کے لیے درخت کے نیچے پناہ نہ لیں کیوں کہ اپنی اونچائی کی وجہ سے درخت پر بجلی گرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
آسمانی بجلی کہاں سے آتی ہے؟
شاید آپ کے ذہن میں بھی یہ سوال آیا ہو کہ بادلوں میں بجلی کہاں سے آتی ہے اور وہ زمین پر کیوں گرتی ہے؟
اس کا آسان جواب یہ ہے کہ جب گرمی سے پانی بخارات بن کر آسمان کی طرف جاتا ہے تو اس عمل میں آبی بخارات سے بادل بننے کے عمل میں ان پر برقی چارج پیدا ہو جاتا ہے۔ بادل کے ہر ٹکڑے میں برقی چارج کی قوت مختلف ہوتی ہے۔
یہ چارج کتنا طاقت ور ہوتا ہے اس کا اندازہ آپ اس چیز سے لگا لیں کہ نم آلود ہوا میں ایک انچ کا فاصلہ طے کرنے کے لیے 50 ہزار وولٹ کی ضرورت ہوتی ہے جب کہ بادلوں کا زمین سے فاصلہ عموماً کئی کلو میٹر ہوتا ہے۔
آسمانی بجلی میں کتنی قوت ہوتی ہے
ماہرین کا کہنا ہے کہ زمین پر گرنے والی بجلی کا چارج عام طور پر 30 کروڑ وولٹ ہوتا ہے۔ اگر اس کا ہم اپنے گھر آنے والی بجلی سے موازنہ کریں تو ہمارے ہاں 120 یا 240 وولٹ کرنٹ آتا ہے۔
آسمانی بجلی کیوں چمکتی اور گرتی ہے؟
آسمان پر بجلی چمکنے، کڑکنے اور زمین پر گرنے کا سبب یہ ہے کہ بجلی زیادہ چارج سے کم چارج کی طرف سفر کرتی ہے۔جب بادل کا ایک زیادہ چارج والا ٹکڑا، ایک کم چارج والے ٹکڑے کے قریب آتا ہے تو بجلی دونوں ٹکڑوں کا چارج برابر کرنے کے لیے کم چارج والے ٹکڑے کی جانب لپکتی ہے۔
اس موقع پر ہمیں بجلی چمکتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس عمل کے دوران جب بجلی ہوا میں سے گزرتی ہے تو کڑکنے کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ زمین پر بجلی اس لیے گرتی ہے کیوں کہ زمین کا برقی چارج صفر ہوتا ہے۔
آسمانی بجلی کو گرنے سے روکنے کے لیے بلند عمارتوں کے اوپر دھاتی سلاخ نصب کرنے کے تقریباً ڈھائی سو سال کے بعد سائنس دان ایک ایسا ہائی ٹیک نظام بنانے کے قریب پہنچ گئے ہیں جو صرف ایک عمارت کو ہی نہیں بلکہ ایک بڑے علاقے کو آسمانی بجلی سے محفوظ رکھ سکے گا۔
آسمانی بجلی کو گرنے سے روکنے والی مشین
یہ نظام لیزر کی ایک انتہائی طاقت ور شعاع پیدا کرتا ہے جس کی قوت طویل فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی قائم رہتی ہے۔ یہ طاقت ور شعاع جب بادلوں کے برقی چارج سے ٹکراتی ہے تو اس کا رخ موڑ دیتی ہے جس سے بجلی زمین پر نہیں گرتی۔
کچھ عرصہ قبل سائنس دانوں نے سوئٹزر لینڈ کے شمال مشرق میں واقع ماؤنٹ سینٹس کے اوپر اس مشین کا کامیاب تجربہ کیا اور آسمانی بجلی کو وہاں گرنے سے روک دیا۔
ماؤنٹ سینٹس کی اونچائی 8 ہزار 200 فٹ ہے۔ اس پہاڑ کے اوپر سے بجلی کی ٹرانسمیشن لائن گزرتی ہے۔ تقریباً 400 فٹ لمبی یہ ٹرانسمیشن لائن ا ور ٹاور دنیا بھر میں آسمانی بجلی کا سب سے زیادہ ہدف بنتا ہے۔
پہلی بار لیزر کی شعاع سے پہلی بار آسمانی بجلی روکنے کے تجربات 2021 میں کیے گئے جس دوران چار بار آسمانی بجلی کے حملوں کو کامیابی سے روک کر ان کا رخ موڑ دیا گیا۔
فرانس میں ایکول پولی ٹیکنک کی لیبارٹری آف اپلائیڈ آپٹکس کے ماہر طبیعیات ، لیزر لائٹننگ راڈ پروجیکٹ کے کوآرڈینیٹر اور سائنسی جریدے فوٹو ونکس میں شائع ہونے والی تحقیق کے مصنف لین ہوارڈ کا کہنا ہے کہ اس اولین دریافت کا اعزاز ہمیں جاتا ہے کہ لیزر کی مدد سے آسمانی بجلی کا رخ موڑا جا سکتا ہے۔
ہوارڈ کہتے ہیں کہ ہم ایک میل کی بلندی تک آسمانی بجلی کو کامیابی سے روکنے کا تجربہ کر چکے ہیں۔
سائنس دانوں کی ٹیم نے جس لیزر مشین کے ذریعے یہ تجربات کیے ہیں ، وہ ایک بڑے کار کے سائز کی ہے۔ اس کا وزن تین ٹن سے کچھ زیادہ ہے۔ اس مشین کی تیاری اور تجربے کے لیے جرمنی کی ایک صنعتی کمپنی ٹرمیف گروپ، جنیوا یوینورسٹی کے سائنس دانوں اور فضائی کمپنی ایرواسپیس نے تعاون کیاہے۔
ابھی یہ مشین اپنے ابتدائی مراحل میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اسے بہتر اور عام استعمال کے قابل بنانے میں تقریباً10 سے 15 سال تک لگ سکتے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جس علاقے میں لیزر مشین لگائی جاتی ہے وہاں فضائی ٹریفک روکنا پڑتی ہے۔