رسائی کے لنکس

ترکیہ میں 14 مئی کو انتخابات؛ کیا جاننا ضروری ہے؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

ترکیہ میں 14 مئی کو ہونے والے انتخابات کو جہاں ملکی تاریخی کے لیے انتہائی دور رس نتائج کا حامل قرار دیا جارہا ہے وہیں مبصرین کے مطابق صدر رجب طیب ایردوان کو اپنے دو دہائیوں پر محیط دورِ اقتدار میں سب سے بڑے سیاسی چیلنج کا سامنا ہے۔

ان انتخابات کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے اس کے بنیادی حقائق جاننا ضروری ہے۔ یہاں الیکشن میں شریک ہونے والے امیدواروں، سیاسی اتحادوں اور ترکیہ کے انتخابی نظام سے متعلق اہم معلومات فراہم کی جارہی ہیں۔

ترکیہ میں پانچ برس کے لیے صدر اور پارلیمنٹ کا انتخاب بیک وقت منعقد ہوتا ہے۔ صدارتی انتخاب میں کامیابی کے لیے کاسٹ کیے گئے ووٹوں میں سے نصف سے زائد حاصل کرنا ضروری ہے۔

اگر کوئی امیدوار 50 فی صد سے زائد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو 28 مئی کو اگلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ لینے والے دو امیدواروں کے درمیان دوسرے مرحلے کی پولنگ ہوگی۔

ترکیہ میں 2017 کے ریفرنڈم کے بعد ترکیہ میں آنے والی آئینی و قانونی تبدیلیوں سے ملک کا پارلیمانی نظام تبدیل ہوکر صدارتی نظام بن گیا ہے۔ ان تبدیلیوں کے بعد وزارتِ عظمی کا عہدہ ختم کرکے صدر کو سربراہِ حکومت بنایا گیا۔

انتخابات میں ووٹر 600 ارکانِ پارلیمنٹ کا انتخاب بھی کریں گے لیکن یہ انتخاب 87 انتخابی ڈسٹرکٹس میں متناسب نمائندگی کے نظام کے تحت کیا جائےگا ۔ اس سے مراد یہ ہے کہ رائے دہندگان کسی امیدوار کو ووٹ ڈالنے کے بجائے سیاسی جماعتوں کو اپنا ووٹ دیں گے جس کے بعد سیاسی جماعتوں کو مجموعی ووٹوں میں سے ان کے حاصل کردہ ووٹوں کی شرح کے مطابق پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جائے گی۔

ترکیہ میں لاکھوں رضا کار انتخابات کی نگرانی پر مامور ہوتے ہیں جب کہ سیاسی جماعتوں کے مبصرین بھی انتخابی عمل کی نگرانی کرتے ہیں۔

پولنگ کا عمل

ترکیہ میں رجسٹرڈ شدہ رائے دہندگان کی تعداد چھ کروڑ 40 لاکھ سے زائد ہے۔ ان میں 60 لاکھ ایسے رائے دہندگان بھی شامل ہیں جو پہلی مرتبہ اپنا حقِ رائے دہی استعمال کریں گے۔ ترکیہ کے بیرونِ ملک مقیم 34 لاکھ رائے دہندگان نو مئی تک ووٹ دے چکے ہیں۔

الیکشن کے لیے 14 مئی کو ایک لاکھ 90 ہزار سے زائد پولنگ اسٹیشنر پر صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک ووٹنگ ہوگی۔ترکیہ میں عام طور پر انتخابات میں ووٹر ٹرن آؤٹ زیادہ رہا ہے۔ 2018 میں 87 فی صد رائے دہندگان نے ووٹ دیا تھا۔

ترکیہ میں الیکشن کے دن شراب کی فروخت پر پابندی ہوگی۔

نتائج کا اعلان کیسے ہوگا؟

ترکیہ میں انتخابات منعقد کرانے والی اتھارٹی ہائی الیکشن بورڈ(وائی ایس کے) کے مطابق انتخابی قوانین میں پولنگ کے دن شام چھ بجے تک نتائج سے متعلق پیش گوئی یا تبصروں کی اجازت نہیں دی جاتی۔

پولنگ کے دن انتخابات کے بعض پہلوؤں کو رپورٹ کرنے کی اجازت ہوتی ہے البتہ میڈیا رات نو بجے سے قبل موصول ہونے والے انتخابی نتائج کا اعلان نہیں کرسکتا۔

ہائی الیکشن بورڈ اگر ضروری سمجھے تو نو بجے سے قبل بھی انتخابی نتائج میڈیا پر جاری کرنے کی پابندی اٹھا سکتا ہے۔ انتخابی دوڑ میں کون سا امیدوار اور جماعت فتح سے ہم کنار ہوگی؟ اتوار کو رات گئے تک نتائج سے اس کا جواب مل جائے گا۔

مدِ مقابل امیدوار

صدر ایردوان کی عمر 69 برس ہے اور وہ گزشتہ دو دہائیوں سے اقتدار میں ہیں۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ ساتھ ان کی حکومت کو بد انتظامی جیسے الزامات کا سامنا ہے۔ صدر ایردوان کے دورِ عروج میں ترکیہ کی معیشت نے تیزی سے ترقی کی تھی۔ اس دور میں ترکیہ کے تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ افراد کا معیارِ زندگی بہتر ہوا تھا۔

صدر ایردوان ترکیہ کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے والے حکمران ہیں۔ اس دوران انہوں ںے درجن سے زائد انتخابی کامیابیاں سمیٹیں اور 2016 میں ان کے خلاف ہونے والی فوجی بغاوت بھی ناکام ہوئی۔

صدر ایردوان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں ترکیہ کی تشکیلِ نو کی ہے۔ اس کی سیکیولر شناخت کو تبدیل کرکے معاشرے میں قدامت پسندی کو فروغ دیا اور علاقائی سطح پر ترکیہ کی اہمیت منوانے کی پالیسی اختیار کی۔ ان کے ناقدین کا کہنا ہے کہ صدر ایردوان نے عدلیہ کو اپنے مخالفین کو قابو میں رکھنے کے لیے استعمال کیا۔

اپنی انتخابی مہم میں ایردوان نے انفرااسٹرکچر کے بڑے منصوبوں اور صنعتی فروغ کو مرکزی نکتہ بنایا ہے۔ اس کے علاوہ وہ اپنی مہم میں ووٹرز کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش بھی کررہے ہیں کہ اپوزیشن کی کامیابی کی صورت میں نظامِ حکومت انتشار کا شکار ہو جائے گا۔

انتخاب میں صدر رجب طیب ایردوان کے مقابلے میں سب سے مضبوط امیدوار کمال کلیچ دار اولو ہیں۔ ان کی عمر 74 برس ہے اور ان کا تعلق ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) سے ہے۔ انہیں مارچ میں چھ جماعتی اپوزیشن اتحاد نے صدارتی امیدوار نامزد کیا تھا۔

کمال کلیچ دار اولو۔
کمال کلیچ دار اولو۔

کمال کلیچ دار اولو نے 2010 میں سی ایچ پی کی قیادت سنبھالی تھی لیکن اس کے بعد ہونے والے انتخابی معرکوں میں وہ صدر ایردوان کی اے کے پارٹی سے برابری کا مقابلہ نہیں کرسکے۔

کمال کلیچ دار اولو سابق سول سرونٹ ہیں۔ وہ 2002 میں پہلی بار سی ایچ پی کی جانب سے رکنِ پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ جدید ترکیہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک نے سی ایچ پی کی بنیاد رکھی تھی۔

کلیچ دار اولو اپنی انتخابی مہم میں صدر ایردوان کی خارجہ پالیسی میں جارحانہ انداز اور معاشی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق اور قانون کی حکمرانی ان کے انتخابی وعدوں میں شامل ہیں۔

اس کے علاوہ فزکس کے سابق استاد اور ہیڈ ماسٹر، 58 سالہ محرم انجے صدر ایردوان کی پارٹی کے سابق رکن سنان اوان بھی صدارتی امیدوار ہیں۔

حکومتی اتحاد

ترکیہ میں کئی سیاسی جماعتیں ہیں الیکشن لڑنے کے لیے مختلف اتحاد بھی بناتی ہیں۔

صدر ایردوان نے 2018 میں قوم پرست جماعت نیشنلسٹ پارٹی (ایم ایچ پی) کے ساتھ پیپلز الائنس کے نام سے اتحاد بنا کر الیکشن میں حصہ لیا تھا۔

ایم ایچ پی کے قوم پرست رہنما دولت باہجیلی نے 2017 میں صدارتی اختیارات بڑھانے کے لیے ہونے والے ریفرنڈم میں صدر ایردوان کی حمایت کی تھی۔ اگرچہ اس سے قبل وہ ایردوان کے سخت مخالف تھے لیکن 2016 میں فوجی بغاوت کی ناکامی کے بعد ان کی صدر ایردوان کی جماعت کے ساتھ قربتیں بڑھنا شروع ہوئیں۔

اپوزیشن کا سب سے بڑا اتحاد

ترکیہ میں نیشنل الائنس اپوزیشن میں شامل جماعتوں کا سب سے بڑا اتحاد ہے ۔ اس اتحاد نے 2018 کے صدارتی الیکشن میں بھی کمال کلیچ دار اولو کی حمایت کی تھی۔ ابتدائی طور پر اس اتحاد میں سی ایچ پی، معتدل دائیں بازو کی جماعت آئی وائے آئی، دائیں بازوں کی جماعت سعادت پارٹی اور ڈیموکریٹ پارٹی شامل تھیں۔

سال 2019 میں اس اتحاد نے انقرہ اور استنبول کے میئر کے انتخاب میں صدر ایردوان کی جماعت اے کے پی کو شکست دی تھی۔ 1990 کی دہائی کے بعد سے یہ عہدہ طیب ایردوان اور ان کی پارٹی کے پاس تھا۔

بعدازاں صدر ایردوان کے سابق اتحادیوں کی بنائی گئی دو سیاسی جماعتیں بھی اس اتحاد میں شامل ہوگئیں۔ ان میں سے ایک دوا پارٹی علی باباجان نے قائم کی تھی جنہوں نے اختلاف کی بنا پر اے کی پی سے راہیں جدا کرلی تھیں۔

دوسری پارٹی احمد داؤد اولو کی گیلیجک(فیوچر) پارٹی تھی۔ داؤد اولو صدر ایردوان کے دور میں وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ کے عہدوں پر فائز رہے تاہم 2019 میں اے کے پی سے علیحدگی اختیار کرکے انہوں نے علیحدہ پارٹی کی بنیاد رکھی۔

لیبر اینڈ فریڈم الائنس

اس اتحاد کی قیادت کردش پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے پاس ہے جو اس وقت ترک پارلیمنٹ کی تیسری بڑی پارٹی ہے۔ انتخابی میدان میں برابر کا مقابلہ ہونے کی وجہ سے مستقبل میں اسے جماعت کو 'کنگ میکر' کی حیثیت بھی مل سکتی ہے۔

کرد نواز پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کے سابق لیڈر صلاح الدین دیمرتاس اگرچہ 2016 سے جیل میں ہیں لیکن انہیں اہم سیاسی فریق کہا جاتا ہے۔ دیمرتاس پر 2014 میں حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاج میں عوام کو تشدد پر اکسانے کے الزامات کا سامنا ہے اور ان الزامات میں انہیں ممکنہ طور پر عمر قید ہوسکتی ہے۔

ایچ ڈی پی نے اپنا صدارتی امیدوار میدان میں نہیں اتارا ہے اور نہ ہی کسی بھی امیدوار کی واضح حمایت کا اعلان کیا ہے۔ البتہ اس کا کہنا ہے کہ وہ ’فردِ واحد‘ کے حکومت کی مخالفت کے اپنے موؑقف پر قائم ہے۔

ایچ ڈی پی نے 2019 کے لوکل الیکشن میں اپوزیشن اتحاد کا ساتھ دیا تھا جس کی مدد سے اپوزیشن نے بڑے شہروں میں حکمران جماعت اے کے پی کو شکست دی تھی۔

دی ورکر پارٹی آف ترکی بھی اس اتحاد میں شامل ہے۔ رواں برس چھ فروری کو ترکیہ میں آنے والے زلزلے کے بعد یہ حزب اختلاف کی مستحکم آواز کے طور پر سامنے آئی ہے۔

اس اتحاد میں گرین لیفٹ پارٹی بھی شامل ہے۔ ایچ ڈی پی کے امیدوار ممکنہ قانونی پابندی کے پیشِ نظر اسی جماعت سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔

اس تحریر کے لیے خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات حاصل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG