’بھولو‘ کی عمر ابھی 17 ہی سال ہوئی ہے کہ جنوری میں ’نمی‘ نام کی 15 سالہ کمسن بچی سے اس کی شادی کردی گئی۔ وہ دونوں بدین کے قریب ایک چھوٹے سے گاوٴں گولاڑچی کے رہائشی ہیں۔’بھولو‘ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اس کی منگنی ایک سال پہلے ہوئی تھی، یعنی اس وقت اس کی عمر 16 اور نمی کی عمر 14 سال تھی۔
بھولو کی آمدنی 9ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ وہ اپنے کچھ رشتے داروں کے ساتھ عارضی طور پر کراچی میں مقیم ہے۔ مزدوری کرتا ہے۔ لیکن گاہے بگاہے گاوٴں بھی جاتا آتا رہتا ہے۔ اس کے والدین گاوٴں میں ہی رہتے ہیں۔ منگنی کے فوراً بعد بھولو نے اپنے والد سے کسی کے سمجھانے کے بعد اس بات پر ناراضگی ظاہر کی تھی کہ انہوں نے اس کی کم عمری میں منگنی کیوں کردی۔ پھر جب دسمبر میں اس کے والد نے اسے گاوٴں آکر شادی کرنے کا پیغام بھیجا تو بھی بھولو نے اس سے صاف انکار کر دیا، جس پر اس کے والد نے اسے بہت برا بھلا کہا۔
صرف آمدی کم اور آزادی کھو جانے کا خوف۔۔۔!
بھولو کم عمری کی شادی کے نقصانات سے تو پوری طرح واقف نہیں۔ لیکن، اسے صرف یہی ڈر تھا کہ شادی کے بعد اس کی آمدنی کم اور آزادی ختم ہوجائے گی۔ چنانچہ، والد کے بلانے پر بھی وہ ٹال گیا اور گاوٴں نہیں گیا، مگر جنوری کے شروع میں والد نے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ بنوانے کا بہانا بنا کر اسے بلایا اور کسی نہ کسی طرح اسے شادی کرنے پر مجبور کر دیا۔
حالانکہ، بھولے کے بقول، اس نے گھر سے بھاگ جانے تک کی دھمکی دی تھی لیکن والد کی ضد کے آگے وہ ہار گیا۔ یوں جس عمر میں اسے پڑھنا اورآزادی سے گھومنا پھرنا چاہئے تھا وہ شادی کی بھاری ذمے داری کے بوجھ تلے ڈال دیا گیا۔
نئی نویلی دلہن نمی کو اردو نہیں آتی۔ اردو ہی کیا اس کے لئے تو ہر ’کالا اکشر بھینس برابر‘ ہے۔ اسے بھی یہ نہیں معلوم کے شادی کیا ہوتی ہے، کم عمری میں وہ ماں بن جائے گی تو اس کے نقصانات کب تک سہے گی۔ اور یہ کہ اس کی صحت داوٴ پر لگ گئی ہے۔
بھولو نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس کے گاوٴں کے بیشتر کم عمر لڑکے اور لڑکیاں بہت جلد شادی کے بندھن میں ’قید‘ کردیئے جاتے ہیں، حالانکہ بعض لڑکوں اور لڑکیوں کی جانب سے بھی اس شادی کی سخت مخالفت کی جاتی ہے۔
نوجوان کی خود کشی
بھولو کے مطابق، کچھ عرصہ پہلے ایک لڑکے نے تو گھر کے باہر ایک درخت سے پھندا لگا کر خودکشی تک کرلی تھی۔ وہ شادی کے لئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھا مگر گھر والوں نے ضد برقرار رکھی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسے خود کو مار لینے کے علاوہ کوئی راہ فرار نہیں سوجھی۔
نظر اندازی، وبا بن گئی
سندھ کے دیہات میں کم عمری کی شادی ’عیب‘ نہیں سمجھی جاتی، بلکہ وہاں کا رواج بن گئی ہے؛ حالانکہ ماہرین کے بقول، یہ ایک ’وبا‘ تسلیم کی جانی چاہئے۔ کم عمری کی شادیوں کے خلاف کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ’مددگار نیشنل ہیلپ لائن‘ کے سربراہ ضیا احمد اعوان ایڈوکیٹ کے مطابق، ’پاکستان میں کم عمری کی شادی کا رجحان گھٹنے کے بجائے بڑھ رہا ہے۔ دیہی علاقوں میں 24 اور شہری علاقوں میں 18فیصد لڑکیوں کی شادی18 سال سے کم عمر میں کردی جاتی ہے۔‘
لڑکیوں کی شادی پر شادیانے۔۔
سندھ کے دیہی علاقوں اور جنوبی پنجاب میں کم عمری کی شادی کا رجحان باقی صوبوں اور علاقوں کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہے، جبکہ رجحان میں اضافے کی بڑی وجہ غربت، ثقافت، خاندانی روایات اور کبھی کبھی خاندانی لڑائی جھگڑوں سے’صلح صفائی‘ بھی ہوتی ہے۔ جیسا کہ سندھ اسمبلی کی رکن اور مسلم لیگ فنکشنل کی رہنما سحرعباسی بتاتی ہیں کہ ’سندھ میں بعض مقامات پر لڑکی کی پیدائش پر خوشیاں منائی جاتی ہیں کیوں کہ کم عمری میں شادی کے عوض غریب والدین کو اچھی خاصی رقم ملنے کا آسرا ہوجاتا ہے۔‘
ناقابل ضمانت جرم۔۔مگر پروا کسی کو نہیں؟
سندھ اسمبلی نے گزشتہ سال انہی دنوں کم عمری میں شادی پر پابندی کا بل اتفاقِ رائے سے منظور کیا تھا۔ بل کے تحت شادی کے لیے عمر کی حد کم سے کم 18 سال مقرر کی گئی ہے، جبکہ اس سے کم عمر بچوں کی شادی پر کمسن لڑکی سے شادی کرنے والے مرد اور لڑکی و لڑکے کے والدین اور سرپرستوں کو قید اور جرمانے کی سزا میں بھی اضافہ میں کیا گیا تھا۔ بل میں اس اقدام کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا گیا ہے اور اس کے مرتکب افراد کو تین برس تک قید اور 45 ہزار روپے تک جرمانے کی سزا طے کی گئی تھی۔
پنجاب اسمبلی میں ترمیمی بل منظور
گزشتہ ہفتے پنجاب اسمبلی میں بھی کم عمری کی شادی کے خلاف ترمیمی بل منظور کیا جس کے تحت کم عمری کی شادی میں ملوث افراد کی سزا اور جرمانوں میں اضافہ کردیا گیا۔ترمیمی بل کے تحت اب کم عمری کی شادی کرنے والے نکاح خواں، ولی یا سرپرست کو 50 ہزار روپے جرمانہ اور چھ ماہ تک قید یا دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔قانون کے تحت، شادی کے لیے لڑکی کی عمر کم از کم 16 سال جبکہ لڑکے کی عمر 18 سال رکھی گئی ہے۔
نواسی سال پرانے قانون پر نظر ثانی
کم عمری کی شادی کے خلاف سب سے پہلے 1929ء میں قانون بنا تھا اور نواسی سال تک اسی پر عمل ہوتا رہا ہے۔ اس کے تحت کم عمری کی شادی پر ملنے والی سزا کی مدت صرف ایک ماہ قید اور ایک ہزار روپے جرمانہ تھی۔ اتنی معمولی سزا کی کسی نے پروا نہیں کی اور نتیجہ یہ ہے کہ کم عمری کی شادی ایک رسم اور ایک رواج کا روپ دھار گئی ہے۔ یہ شادیاں اتنی عام ہیں کہ لوگ کھلے قانون کی خلاف ورزی سے بھی نہیں ڈرتے۔
ذمے داری ابھی باقی ہے۔۔۔
ماہرین، تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ قانون اور بلوں کی منظوری کے بعد بھی ذمے داریاں کم نہیں ہوتیں کیوں کہ عوامی سطح پر بیداری کی شرط لازمی ہے جب تک عوام کو خود کم عمری کی شادی کے نقصانات سے باربار آگاہی نہیں کرادی جاتی تب تک قانون پر مکمل درآمد مشکل ہے۔ لوگ ڈھکے چھپے انداز میں ہی سہی کم عمری کی شادی کی رسم نہیں چھوڑیں گے ۔ اس کے لئے بہت ہی موثر مہم چلانا ہوگی جبکہ پاکستانی میڈیا کو بھی رضاکارانہ طور پر سب سے زیادہ ان شادیوں کے خلاف آواز اٹھانا اور لوگوں کو آگاہی دلانا ہوگی تبھی ان دقیانوسی اور فرسودہ روایات کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔